جدید غزل اور مرثیہ کے منفرد لہجہ کا شاعر ’امید فاضلی‘

ڈبائی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امید فاضلی میرٹھ پہنچے جہاں سے میٹرک کیا، 1940 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، پھر 1944 میں میرٹھ میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں ملازم ہوئے۔

<div class="paragraphs"><p>امید فاضلی</p></div>

امید فاضلی

user

جمال عباس فہمی

اردو ادب میں ایسے شعرا کی تعداد کم ہی ہے جن کی غزل اور مرثیہ کا لہجہ یکساں طور سے پر تاثیر ہے۔ جو اپنے اظہار کے پیکر خود تراشتے ہیں۔ جو لب و لہجہ کی قوت اظہار سے بھی کام لیتے ہیں۔ ایسے کم شعرا میں امید فاضلی کا نام سرفہرست ہے۔ امید فاضلی نے فنِ شاعری میں ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل، نظم، سلام، نوحہ، حتی کہ گیت بھی لکھے۔ لیکن بحیثیت غزل گو اور مرثیہ گو ان کی ادبی حیثیت مسلم ہے، فاضلی ہونے کے سبب یہ غلط فہمی عام ہے کہ وہ ندا فاضلی کی بھائی ہیں۔ ندا فاضلی کے والد کا نام مرتضیٰ حسن ہے اور امید فاضلی کے والد کا نام سید محمد فاروق۔

امید فاضلی کی ادبی خدمات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کے بارے میں معلومات بھی ضروری ہے۔ امید فاضلی کا اصل نام ارشاد احمد فاضلی تھا۔ ان کے والد سید محمد فاروق حسن فاضلی بھی شاعر تھے۔ وہ 17 نومبر 1923 کو ہندوستان میں اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کے قصبہ ڈبائی میں پیدا ہوئے۔


ڈبائی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ آ گئے جہاں سے انہوں نے میٹرک کیا۔ 1940 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944 میں میرٹھ میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔ 1952 میں ہجرت کر کے پاکستان کے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ کراچی میں بھی وہ ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے ہی وابستہ رہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ادبی جریدے ’الفاظ‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہ جریدہ مجلہ ’سیپ‘ کے مدیر نسیم درانی شائع کرتے تھے۔ امید فاضلی کو بچپن سے ہی ادبی اور عزائی ماحول ملا جس کے زیر اثر پندرہ برس کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ پہلے وہ امید ڈبائیوی کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے لیکن بعد میں قلمی نام امید فاضلی اختیار کیا۔ ابتدائے شاعری میں انہوں نے پہلے شکیل بدایونی اور اس کے بعد نوح ناروی سے مشورہ سخن کیا۔ انہوں نے ویسے تو قومی شاعری بھی کی لیکن غزل اور مرثیہ گوئی کے جدید لہجے کے شاعر کے طور پر ان کی شناخت مستحکم ہے۔ انہوں نےاپنے کلام کا بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’دریا آخر دریا ہے‘ غزلوں پر مشتمل ہے۔ ’سرنینوا‘ (مراثی کا مجموعہ)، ’میرے آقاؐ‘ (حمد و نعت)، ’تب و تاب جاودانہ‘ (مراثی)، ’پاکستان زندہ باد‘ (قومی و ملی شاعری) کی صورت میں ان کا شعری سرمایہ محفوظ ہے۔ ’دریا آخر دریا ہے‘ پر انہیں پاکستان کے سب سے بڑے آدم جی ایوارڈ سے نوازہ گیا تھا جبکہ مراثی کے پہلے مجموعے ’سر نینوا‘ کے لیے انہیں ’میر انیس ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔

غزل کے حوالے سے مستحکم شناخت قائم کرنے کے بعد انہوں نے 1949 میں مرثیہ گوئی کا رخ کیا اور 35 بند پر مشتمل پہلا مرثیہ ’یا رب بحقِ خونِ شہیدانِ کربلا‘ نظم کیا۔ پہلے مرثیہ سے انہیں زیادہ مقبولیت نہیں ملی۔ 1972ء میں جب انہوں نے دوسرا مرثیہ ’زبانِ عجز کھلی ہے تو مدعا مانگوں‘ کہا تو اس نے رثائی حلقے میں ہلچل مچا دی۔ اس کے بعد لگاتار مرثیہ کہتے چلے گئے اور مرثیہ گوئی میں وہ مقام پایا کہ پاکستان ٹیلی ویزن اور ریڈیو پاکستان پر ہر سال محرم میں ان کا مرثیہ تحت اللفظ انداز میں پیش کیا جانے لگا۔


امید فاضلی کی شعری کائنات کچھ خاص الفاظ کے گرد رقص کرتی ہے۔ دریا، صحرا، پیاس، دشت، شہر، گھر، خوشبو، چہرہ، نیند، سایہ اور دھوپ۔ انہوں نے اپنے خیالات اور تصورات کے اظہار کے لیے کم و بیش انہی الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ امید کی شاعری کا انسان نہ معاشرے سے الگ ہے نہ معاشرے میں گم ہے۔ اس کے باوجود اپنی شناخت باقی رکھتا ہے۔ امید فاضلی کی شاعری کا انسان شکست خوردہ لوگوں کی طرح روتا دھوتا نہیں ہے بلکہ وہ زندگی کے آلام و مصائب کا سامنا کرنا جانتا ہے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر دشواری کو ایک چیلنج سمجھ کو مردانہ وار قبول کرتا ہے۔ امید فاضلی کا شاعرانہ مزاج محض جمال پرستی سے عبارت نہیں ہے بلکہ عدل، انصاف، خیر، سچائی، ایمانداری جیسی اخلاقی اقدار کا حامی ہے۔

حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو بہ رو تو نہیں

شریکِ عشق کہیں کوئی آرزو تو نہیں

گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے

شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے

اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں

دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا

یہ خود فریبئ احساسِ آرزو تو نہیں

تری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں

جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب

سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی

کہیں یہی ترا اندازِ گفتگو تو نہیں

وہ خواب ہی سہی پیشِ نظر تو اب بھی ہے

بچھڑنے والا شریکِ سفر تو اب بھی ہے

اساتذۂ فن نے امید فاضلی کی شاعری کو خراج پیش کیا ہے۔ منفرد لہجے کے شاعر جون ایلیا کا امید فاضلی کی شاعری کے سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’دانش کا ایک دکھ ہے جو مجھے ان کی غزل میں اپنی ایک عجیب سی ماجرا خیزی کے ساتھ سلسلہ جنباں محسوس ہوتا ہے۔ وہ میرے ایک ایسے پیش رو ہیں جو اپنے پس روؤں کو متاثر ہی نہیں بلکہ مرعوب کرتے ہیں۔ ان کے پورے تخلیقی سرمایہ کا جائزہ لیا جائے تو ان کے بعض قدردان بھی حیران رہ جائیں۔ ان کی شخصیت میں جو خلاقانہ جامعیت پائی جاتی ہے اس کی حرص ہماری نئی نسل کے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہوگی‘‘۔


امید فاضلی کی مرثیہ نگاری پر معروف شاعر، تنقید نگار اور کتاب ’تاریخ مرثیہ گوئی‘ کے ترتیب کار عاشور کاظمی کا کہنا ہے کہ ’’امید فاضلی نے اپنے مراثی میں کلاسیکی انداز کی پابندی نہیں کی لیکن کہیں یہ اعلان بھی نہیں کیا کہ وہ جدید مرثیے کے علمبردار ہیں۔ ان کے نظریے کے مطابق زبان ارتقا پذیر ہے، شاعری ارتقا پذیر ہے، زندگی کا ہر پہلو ارتقا پذیر ہے۔ شعر کے حوالے سے قدامت و جدت کی بحث ان کی نظر میں وقت کا زیاں ہے۔ امید فاضلی محبت کے شاعر ہیں، فکر کے شاعر ہیں۔ جب سے انہوں نے مظلومِ کربلا کو اپنی محبت کا مرکز بنا لیا ہے۔ انہیں چلتی ہوئی تلواروں میں سرمدی نغمے سنائی دیتے ہیں۔ ان کے مرثیوں کے موضوعات عشق و شعور قرآن اور اہلِ بیت علم و عمل تہذیبِ نفس صبر اور سیدہ زینبؑ اس کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امید فاضلی کو طلوع کا سراغ مل گیا ہے اور انہوں نے غروب یا غروب ہونے والوں سے ناتا توڑ لیا ہے‘‘۔

زبانِ عجز کھلی ہے تو مدعا مانگوں

یہ وقت ہے کہ طلب سے بھی کچھ سوا مانگوں

رسولؐ کا ہے یہ منبر، یہاں دعا مانگوں

شعورِ تذکرہ سبطِ مصطفیٰؐ مانگوں

خدائے عشق، لہو کو مرے نوا کر دے

وہ حرف دے کہ جو مدحت کا حق ادا کر دے

’روشنی‘ کے عنوان سے ان کے نظم کردہ مرثیہ کے یہ بند ان کے لہجہ اور فکر کی جدت بیان کرتے ہیں۔

روشنی خنجر تلے بھی فاتح مرگ و اجل

آندھیوں کی زد پہ بھی روشن رہے اسکے کنول

ہے ابد شبیر اسکا مصطفیٰ اسکا ازل

روشنی کی جستجو ہے مصطفیٰ کے در پہ چل

کتنی ہی شمعیں جلیں سورج نہ ہو تو دن نہیں

روشنی کی معرفت بن مصطفیٰ ممکن نہیں

---

روشنی وحی الہیٰ روشنی قلب رسول

روشنی حرف یقیں حسن اثر باب قبول

روشنی ذہن خدیجہ میں تمنائے بتول

روشنی شبیر و شبر کی قیادت کے اصول

 زد اصولوں پر گر آئی انقلاب آ جائے گا

نوک نیزہ پر ابھر کر آفتاب آ جائے گا


اپنے معاصرین کی نسبت زیادہ سیاسی اور سماجی بصیرت رکھنے والا شاعر امید فاضلی 29 ستمبر 2005 کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ان کی قبر ہے۔ امید فاضلی کے متعدد اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔

آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں

وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں

---

چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست

فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں

---

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر چلے جاتے

---

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی

خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

---

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی

کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی

---

سوانگ اتنے بھرے کہ بھول گیا

میرا اپنا بھی ایک چہرہ ہے

---

خود اپنے دکھ کے سمندر کو متھ رہا ہوں میں

 جو زہر مجھ میں بھرا ہے مجھی کو پینا ہے

---

وہ قحط آرزو ہیکہ بازار عقل میں

نظارے نے نگاہ کی قیمت لگائی ہے

---

ہائے کیا لوگ یہ آباد ہوئے ہیں مجھ میں

 پیار کے لفظ لکھیں لہجے سے ڈستے جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔