نیپال: ناکام سیاسی نظام سے مایوس عوامی اشتعال کا خوفناک باب، سامنے نظر آ رہی غیر یقینی کی تاریک گلی
بدعنوانی مخالف جنریشن-زی کے احتجاجی مظاہروں اور ایک تشدد آمیز بغاوت کے بعد وزیر اعظم اور حکومت کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس درمیان نیپال ایک نئی سیاست کی تلاش میں ہے۔

نیپالی عام طور پر ہندوستان کے علاوہ اپنے کسی بھی جنوب ایشیائی پڑوسیوں میں ہو رہی سیاسی ہلچل سے بے پروا رہتے ہیں۔ لیکن جب 2022 میں سری لنکا میں لوگوں نے راج پکشے حکومت کے خلاف سڑک پر اترے تو انھوں نے اس واقعہ کو دھیان سے دیکھا۔ پھر گزشتہ سال بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا، تو شیخ حسینہ اور ان کے آس پاس کا پورا سیاسی نظام عوام کی نظروں میں تھا۔ نیپال نے اسے بھی توجہ کے ساتھ دیکھا۔ کاٹھمنڈو میں کئی مواقع پر ہوئی بات چیت کے دوران میں نے ان دونوں واقعات کے بارے میں ایک ہی بات سنی– ہماری بھی باری آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں : نیپال: کہاں تک ٹھیک ہے نئی نسل کا غصہ اور تشدد؟
اور یہ باری اب آ گئی۔ ’جین-زی پروٹیسٹ‘ کے بینر تلے 8 ستمبر کو نیپال کے نوجوان سڑکوں پر اتر آئے۔ نیپال کے نوجوان اپنے ملک کے بدعنوان سیاسی نظام اور سیاسی طبقہ سے تنگ تھے۔ بار بار انہی بوڑھے لوگوں کو ملک کی قیادت کرنے کے نام پر اور لوٹ کرتے دیکھ کر غمزدہ تھے۔ بے روزگاری اور دوسرے ممالک میں کام کرنے کے متبادل کے علاوہ کوئی دیگر راستہ نہ دیکھ پانے سے غصے میں تھے۔ اس بار احتجاجی مظاہرہ اچانک تشدد میں بدل گیا اور پولیس کی گولی باری کے بعد مرنے والوں کی تعداد 19 تک پہنچ گئی۔ اسپتال زخمیوں سے بھر گئے۔ یہ نیپال میں احتجاجی مظاہرہ کا اب تک کا سب سے خوفناک دن ثابت ہوا۔
9 ستمبر کی صبح، غم اور غصے سے بھرے ہزاروں لوگ کرفیو توڑتے ہوئے باہر نکل آئے۔ پورے ملک میں، حکومت اور سیاسی اداروں سے جڑی ہر چیز نشانے پر آ گئی۔ پارٹی دفاتر اور رہنماؤں کے گھر دھوئیں میں ڈوب گئے۔ دوپہر تک کاٹھمنڈو وادی سے کالے دھوئیں کے گھنے بادل اٹھنے لگے۔ گولیاں چلنے کی آوازوں، سائرن کی چیخوں اور دھماکوں سے کاٹھمنڈو گونج اٹھا۔
گھریلو وزیر کے استعفے کے بعد باقی وزیروں نے بھی استعفیٰ دینا شروع کر دیا۔ اپوزیشن کے اراکینِ پارلیمان نے اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دیا، اور حکومت کو برخاست کرنے اور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ بڑھنے لگا۔ دوپہر 3 بجتے بجتے وزیراعظم کے. پی. شرما اولی کو بھی اعلان کرنا پڑا کہ وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اولی تیسری بار اقتدار میں آئے تھے اور مزاجاً نہایت ضدی اور خودغرض سمجھے جاتے تھے۔
جیسے جیسے دن گزرا، حالات پوری طرح بے قابو ہوتے گئے۔ اب وہ ایک دن پہلے والے ’جین زی‘ مظاہرین نہیں رہے تھے۔ وہ ہجوم میں بدل چکے تھے جس کا ہر جگہ قبضہ تھا۔ رہنماؤں کی پٹائی ہو رہی تھی، پتھراؤ اور آگ زنی کی ویڈیوز سامنے آنے لگیں۔ وزیراعظم ہاؤس، صدر محل، سپریم کورٹ، پارلیمان، سپر مارکیٹ، پولیس اسٹیشن اور بہت کچھ جل رہا تھا۔ فوج کے سربراہ نے صبر اور سکون کی اپیل کی لیکن ملک میں جاری لوٹ مار اور تشدد پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ آخرکار، رات گئے اعلان ہوا کہ نظم و ضبط بحال کرنے کے لیے فوج نے حالات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
آج (10 ستمبر) جب نیپال بیدار ہوا تو ملک گہری غیر یقینی میں ڈوبا ہوا تھا۔ عام احساس یہ ہے کہ 19 لوگوں کی موت کے لیے حکومت کو جوابدہ ہونا ہی ہوگا اور اولی سمیت دیگر پرانے رہنماؤں کو جانا ہی ہوگا۔ فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ اب اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آگے کیا ہوگا۔
گزشتہ دو دنوں میں جس تیزی سے سب کچھ رونما ہوا، اور جس پیمانے پر ہوا، وہ تقریباً فہم سے باہر ہے۔ لیکن ماضی سے کچھ مثالیں ملتی ہیں جن سے نیپالی عوام کو شاید اس سوال کا جواب ملے کہ آگے کیا ہو سکتا ہے۔ کافی عرصے سے سرگوشیاں تھیں کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے جو اس جمی جڑوں والی نظام کو تہس نہس کر دے گا۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہوئی بغاوتوں پر عوامی ردعمل میں نیپالی عوام کا غصہ بھی پروان چڑھ رہا تھا۔
دو دہائیوں پہلے جب نیپال خانہ جنگی سے نکلا تو عوام کو بہت امیدیں تھیں۔ ملک کی قائم شدہ جماعتوں (جن میں نمایاں نیپالی کانگریس اور اولی کی نیپالی کمیونسٹ پارٹی [متحدہ مارکسی-لیننی] ہیں) نے بادشاہت کے خاتمے کے بعد جمہوری نظام کا وعدہ کیا تھا۔ انہی دنوں ملک میں اولی کی پارٹی اقتدار میں تھی۔ ماؤ وادیوں نے ہتھیار ڈال کر اور جمہوری انتخابات میں حصہ لینے کا وعدہ کر کے نیپالی عوام کو ایک منصفانہ سماج کا خواب دکھایا تھا، جو کبھی پورا نہ ہو سکا۔ مجموعی طور پر امیدیں ٹوٹ گئیں، وعدے ٹوٹ گئے۔
ماؤ وادیوں نے خانہ جنگی کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، جو اس بات کی علامت تھی کہ نیپالی عوام تبدیلی کے لیے کتنے بے تاب تھے۔ لیکن جلد ہی ان کی حقیقت کھل گئی اور وہ بھی ایک اور قائم شدہ جماعت بن کر رہ گئے۔ ان کی ناکامی کی سب سے جیتی جاگتی مثال یہی ہے کہ کس طرح ان کے رہنما – خود صدر پرچنڈ – جلد ہی اپنی انقلابی پہچان سے زیادہ اپنی ذاتی دولت کے لیے پہچانے جانے لگے۔ نیپال کے لیے ایک ترقی پسند، نئے آئین کا مسودہ بار بار روکا گیا۔ بعد کے انتخابات میں ووٹ عموماً تین بڑی جماعتوں کے درمیان بٹتے رہے، جہاں خفیہ سودے بازی اور عوامی سطح پر غداری کے ذریعے انہی بدنام رہنماؤں کے آنے اور جانے کا سلسلہ جاری رہا۔
نیپال نے اس دوران کچھ ترقی تو کی، لیکن وہ نہایت سست اور کربناک تھی۔ عوامی خدمات محض نام کی رہ گئیں، عوام پر ٹیکس کا بوجھ پڑ رہا تھا۔ نیپال کے لوگوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ بیرونِ ملک کام کرنے والے باشندوں کی طرف سے بھیجا گیا پیسہ ہے۔ لیکن وہ وہاں کن حالات میں کام کرتے ہیں یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کے برعکس سیاسی اشرافیہ (جس پر طویل عرصے سے ملک کے پہاڑی خطے کی طاقتور ذاتوں کا دباؤ رہا ہے) طبقہ خوشحال ہو رہا تھا۔ وہ اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچا رہے تھے اور عیش کر رہے تھے۔ گھوٹالوں اور بدعنوانی کا بول بالا ہو گیا تھا، جس میں اقتدار کے مختلف طبقوں کے سیاست دان، بیوروکریٹ اور تاجر شامل تھے۔ عوام کے دلوں میں مایوسی اور غصہ مسلسل بڑھ رہا تھا۔
اس سے قبل 1950 کی دہائی کی تحریک بھی نیپال کی تاریخ ہے۔ اس وقت عوام نے پہلی جمہوری تحریک کی تھی۔ کئی دہائیوں کے ’پنچایت‘ حکمرانی (جسے ایک طرح سے بادشاہت کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا) کے بعد نیپال نے 1990 میں ایک بار پھر اپنی آواز بلند کی۔ اس سے ایک بار پھر جمہوری جماعتوں کی اقتدار میں واپسی ہوئی، لیکن بالواسطہ طور پر بادشاہت ہی چلتی رہی۔ لیکن بدانتظامی اور بڑھتی ہوئی ماؤ وادی بغاوت نے 2005 میں شاہی تختہ الٹنے کا راستہ ہموار کیا۔ پھر 2008 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے ساتھ ہی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوا۔
نیپال کی موجودہ جدوجہد کو ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسے انقلاب کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ کوئی بھی حکومتی نظام کو ختم کرنا نہیں چاہتا، بلکہ طرزِ حکمرانی میں تبدیلی چاہتا ہے۔ نیپال میں ہر بار تحریک اور انقلاب سے نئے چہرے سامنے آئے ہیں۔ اس بار جو چہرے سامنے آئے ہیں ان میں ٹی وی اینکر سے سیاست دان بنے راوی لمیچھانے اور ریپر سے کاٹھمنڈو کے میئر بنے بالان شاہ نمایاں ہیں۔ لمیچھانے نے 2022 میں سیاسی جماعت بنائی تھی اور کچھ ہی مہینوں بعد ہونے والے انتخابات میں سب کو چونکا دیا تھا جب انہوں نے 10 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ بالان شاہ بھی اسی سال اچانک سامنے آئے تھے اور انہوں نے اقتدار کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست دے کر دارالحکومت کاٹھمنڈو کے میونسپل انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اس دوران لمیچھانے کئی تنازعات میں گھر گئے۔ ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگے اور جیل بھی جانا پڑا، لیکن احتجاج کے باعث انہیں رہا کر دیا گیا۔ اگرچہ کسی بھی مخالف کو ابھرتا دیکھ کر اقتدار ایسے حربے اپناتا رہا ہے، لیکن لمیچھانے پر لگے الزامات کتنے درست یا غلط تھے، یہ نہیں معلوم۔ ہاں، لمیچھانے نے اس دوران اقتدار سے ہاتھ نہیں ملایا۔ ادھر بالان شاہ کا بطور میئر کام بھی کوئی شاندار نہیں رہا۔ البتہ انہوں نے اپنی آن لائن ساکھ ضرور مضبوط کی ہے، جو ان کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرانے رہنماؤں کے ہٹنے کے بعد نیپالی اب کس پر بھروسہ کریں گے، کیونکہ شاید وہ نئے چہروں کے بارے میں بھی زیادہ پُر اعتماد نہیں ہیں۔
فی الحال نیپال نیپال کے سامنے غیر یقینی کی گہری گلی دکھائی دے رہی ہے۔ 2 دن ہوئے تشدد کے نشانات سڑکوں پر موجود ہیں، فضا میں دھوئیں کی بو ہے، لاشوں کی آخری رسومات ادا ہونی ہے، امن کو واپس آنا ہے۔ لیکن آگے کیا ہوگا اور کتنا آسان ہوگا، فی الحال کہنا مشکل ہے۔
(یہ مضمون نیپال کے اخبار ’ہمل ساؤتھ ایشیا‘ میں شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار رومان گوتم اس اخبار کے مدیر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔