نیپال: کہاں تک ٹھیک ہے نئی نسل کا غصہ اور تشدد؟

نیپال شدید سیاسی و سماجی بحران میں ہے، مہنگائی و بے روزگاری سے غصہ بھڑکا۔ نوجوان نسل نے سوشل میڈیا پابندی پر احتجاج کیا جو تشدد میں بدلا۔ حل صرف پُرامن جمہوری راستہ اور عوامی مسائل پر توجہ ہے

<div class="paragraphs"><p>نیپال میں بغاوت / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

سید خرم رضا

نیپال اس وقت بدترین سیاسی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ ملک کے وزیرِ اعظم کے پی شرما اولی کو شدید عوامی احتجاج کے بعد مستعفی ہونا پڑا۔ حالات اس حد تک خراب ہو گئے کہ احتجاجی مظاہرین پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک سابق وزیرِ اعظم کی اہلیہ کو زندہ جلا دیا، دوسرے سابق وزیرِ اعظم کو بری طرح زد و کوب کر کے لہو لہان کر دیا، کئی سابق وزراء کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اہم عمارتوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کی عمارت کو بھی آگ لگا دی گئی۔ یہ سب واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل میں کتنا شدید غصہ اور بے چینی موجود ہے۔

ان مظاہرین کو دنیا بھر میں ’جنریشن زیڈ‘ یعنی ’جین زی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس کی پیدائش 1997 سے 2012 کے درمیان ہوئی اور جس نے آنکھ کھولتے ہی انٹرنیٹ کا زمانہ دیکھا۔ اس نسل کے لئے انٹرنیٹ صرف ایک سہولت نہیں بلکہ زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ جب حکومت اس نسل سے ان کی پسندیدہ ویب سائٹس اور ایپس چھیننے کی کوشش کرتی ہے تو ان کے غصے کا پھوٹنا لازمی امر بن جاتا ہے۔ نیپال کی حکومت نے حال ہی میں فیس بک، واٹس ایپ اور ایکس جیسی بڑی کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی کیونکہ ان کمپنیوں نے مقررہ مدت میں اپنے آپ کو حکومت کے ساتھ رجسٹر نہیں کرایا۔ اس فیصلے کو نوجوانوں نے براہِ راست اپنے خلاف سمجھا اور ان کا غصہ سڑکوں پر نظر آیا۔

یہ صورتحال صرف نیپال تک محدود نہیں۔ اس سے پہلے سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی ایسے ہی بحران سے گزر چکے ہیں۔ سری لنکا میں مظاہرین نے صدر اور وزیرِ اعظم کے گھروں پر دھاوا بول کر انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس وقت کہا گیا کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے میں مکمل ناکام ہو گئی ہے۔ اچانک حکومت بدلتے ہی ملک کے  معاشی حالات آہستہ آہستہ سنبھلنے لگے، اس  کو کیا سمجھا جائے؟ کچھ ایسا ہی بنگلہ دیش میں بھی ہوا جہاں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد حالات بہتری کی طرف مڑ گئے۔


نیپال میں بھی یہی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ امکان ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد حالات آہستہ آہستہ پٹری پر آ جائیں گے اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی غصے کی بنیادی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ ذرائع ابلاغ نے اس بحران کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا، لیکن اصل جڑ یہی دو مسائل نکلے جنہوں نے عوام کو سراپا احتجاج بنایا۔ سیاسی مخالف جماعتوں نے بھی اس غصے کو اپنے حق میں استعمال کیا اور عوام کو حکمرانوں کے خلاف مزید مشتعل کیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال تینوں ممالک کے حکمران عوام کی نبض کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے اپنی مرضی اور مشیروں کے مشوروں کو عوامی خواہشات پر ترجیح دی۔ یہی رویہ ان کے زوال کی اصل وجہ بنا۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت ان کی تکالیف کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اپنے مفادات کی فکر کر رہی ہے تو وہ احتجاج کی طرف بڑھتے ہیں۔ اور جب احتجاج کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو نتیجہ اکثر تشدد اور انتشار کی صورت میں نکلتا ہے۔

تاہم، اس ساری صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غصے میں آ کر تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ سیاسی اختلاف اور عوامی احتجاج جمہوریت کا حصہ ہیں، مگر کسی کو جلا دینا، زخمی کرنا یا قومی اثاثوں کو نذرِ آتش کر دینا کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف ملک کا نقصان ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

اسی طرح حکمرانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مسائل کو نظر انداز نہ کریں۔ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں اور ایسے فیصلے نہ کریں جو براہِ راست عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔ عوامی رائے اور خواہشات کو اہمیت دینا ہی ایک صحت مند جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے۔


یہ وقت نیپال کے عوام اور قیادت دونوں کے لئے آزمائش کا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ اپنے غصے پر قابو پائیں اور پُرامن طریقے سے اپنے مطالبات پیش کریں، جبکہ حکومت کو چاہئے کہ عوامی تکالیف کو حل کرنے میں عملی اقدامات کرے۔ اگر دونوں فریق تحمل اور دانش مندی کا مظاہرہ کریں تو نیپال ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔