لازمی سوریہ نمسکار: ’15 فروری کو مسلم طبقہ اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں‘، جمعیۃ علماء راجستھان کی اپیل

راجستھان حکومت نے 15 فروری کو سبھی اسکولوں میں ’سوریہ نمسکار‘ لازم کرنے کی ہدایت دی ہے، اس کے خلاف مسلم تنظیموں نے راجستھان ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے جس پر 14 فروری کو سماعت ہوگی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر: پریس ریلیز</p></div>

تصویر: پریس ریلیز

user

پریس ریلیز

گزشتہ دنوں راجستھان حکومت کے ذریعہ اسکولوں میں سوریہ نمسکار لازم کرنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی، بالخصوص 15 فروری کو سبھی اسکولوں میں سوریہ سپتمی کے موقع پر اسے لازم کیا گیا ہے۔ اس کے تناظر میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء راجستھان کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس مسلم مسافر خانہ جے پور میں منعقد ہوا، جس کی صدارت مولانا قاری محمد امین پوکرن نے کی۔ اجلاس میں سوریہ نمسکار کے خلاف مولانا عبدالواحد کھتری جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء راجستھان نے تجویز پیش کی۔

منظور شدہ قرار داد میں اسکولوں میں 15 فروری کو سوریہ سپتمی کے موقع پر طلبہ، والدین اور دیگر کے لیے اجتماعی ’سوریہ نمسکار‘ کے حکومتی حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ لہذا مسلم کمیونٹی سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ 15.02.2024 کو سوریہ سپتمی کے دن طلبہ کو اسکول نہ بھیجیں اور اس تقریب کا بائیکاٹ کریں۔


دریں اثنا، جمعیۃ علماء ہند سمیت دیگر مسلم تنظیموں نے راجستھان ہائی کورٹ میں ایک مشترکہ عرضی داخل کی ہے، جس میں 15 فروری کے پروگرام اور اسکولوں میں لازمی سوریہ نمسکار کے فیصلے کو کالعدم کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ عدالت میں آج جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے وکیل ظہور نقوی موجود تھے، حالانکہ آج ہی سماعت پر زور دیا گیا، لیکن معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے عدالت نے 14 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔

جے پور میں جاری جمعیۃ کے اجلاس میں ریاست بھر سے جمعیۃ کے قائدین نے شرکت کی۔ ریاستی مجلس عاملہ نے واضح کیا کہ اکثریتی ہندو سماج میں سوریہ کو خدا/دیوتا کے طور پر پوجا جاتا ہے۔ اس عمل میں بولے جانے والے کلمات، شلوک وغیرہ جیسی سرگرمیاں پوجا کی ایک شکل ہیں، جب کہ مسلمانوں کے لیے اللہ کے سوا کسی کی عبادت شرک ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کسی بھی صورت میں اسے قبول نہیں کرے گی۔ جمعیۃ علماء ہند یہ مانتی ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں یوگا کے بہانے کسی خاص مذہب کے عقائد کو دوسرے مذاہب کے لوگوں پر مسلط کرنا، بالخصوص بچوں کو مجبور کرنا آئینی اصولوں اور مذہبی آزادی نیز چائلڈ رائٹس کی کھلی خلاف ورزی اور ایک مذموم کوشش ہے۔ ہم ملک کے جمہوری نظام کے مطابق اس کے خلاف  ہر سطح پر آواز بلند کریں گے۔


جمعیۃ علماء نے ریاستی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ یوگا پریکٹس کے مسئلہ پر مسلم کمیونٹی کو اعتماد میں لے، تاکہ غیر ضروری تنازعہ سے بچا جا سکے اور مذکورہ متنازعہ حکم کو فوری اثر سے واپس لینے کی ہدایات جاری کی جائیں۔ کیونکہ اس قدم سے ملک کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا۔ جمعیۃ علماء ہند نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی نئی نسلوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کریں، کیونکہ آئین میں اپنے مذہبی عقیدے پر قائم رہنے کی ہر ایک کو آزادی ہے، نیز کسی کو مذہبی بنیاد پر تعلیم سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ نئی دہلی میں جمعیۃ علماء کے قانونی معاملات کے نگراں ایڈوکیٹ و مولانا نیاز احمد فاروقی نے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی عرضی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالت سے انصاف ملنے کی امید ہے، یہ مسلم کمیونٹی کے ایمان و عقائد کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔