مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے... ظفر آغا

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہلدوانی میں مجمع کو قطعاً مشتعل نہیں ہونا چاہیے تھا، اس بات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن پولیس کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔

<div class="paragraphs"><p>ہلدوانی تشدد کی فائل فوٹو</p></div>

ہلدوانی تشدد کی فائل فوٹو

user

ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اتراکھنڈ کا ہلدوانی شہر ہے۔ آپ واقف ہیں کہ ان دنوں ہلدوانی میں غریب مسلم آبادی والے علاقہ میں جنگی حالات ہیں۔ ہوا یہ کہ چند روز قبل ہلدوانی کی غیر قانونی کالونی میں ایک مسجد اور اس سے متصل مدرسہ بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کر دیا گیا۔ یہ کارروائی وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے رات کے وقت کی۔ جب مسجد اور مدرسہ گرایا جا رہا تھا تو یکایک اس کے ارد گرد لوکل آبادی کا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ خبروں کے مطابق اس مجمع نے سرکاری افسران سے منت سماج کی۔ مجمع نے افسران کو ہائی کورٹ کا وہ حکم نامہ بھی پیش کیا جس میں ذکر تھا کہ اس معاملہ پر چند روز باد ہی سماعت ہونے والی تھی۔ لیکن افسرا اور پولیس نے ایک بھی نہیں سنی اور بلڈوزر چل پڑے۔ مجمع مشتعل ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مجمع نے سرکاری افسران کو نہ صرف کام کرنے سے روکا بلکہ سرکاری کارندوں پر حملہ آور بھی ہو گیا۔ مجبوراً پولیس کو گولی چلانی پڑی جس میں اب تک پانچ افراد کی موت کا اعلان ہو چکا ہے اور درجنوں زخمی اب بھی اسپتال میں پڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مجمع کو قطعاً مشتعل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس بات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن پولیس کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔ حالات ابھی تک سنگین ہیں۔ کرفیو کے ساتھ ساتھ علاقے کی ناکہ بندی اور اندھا دھند گرفتاریاں جاری ہیں۔


لیکن ہلدوانی میں جو کچھ ہوا اس کی نوبت کیسے آئی! بات یوں ہے کہ چند ماہ قبل ہلدوانی کی ایک غیر قانونی کالونی کو شہر کی میونسپل کارپوریشن کے افسران اور پولیس نے بلڈوزروں کے ساتھ اچانک گھیر لیا۔ افسران کو یہ حکم تھا کہ وہ اس غیر قانونی آبادی کو ڈھا دیں۔ چنانچہ افسران حکم بجا لانے کو اس کالونی میں پہنچ گئے۔ لیکن علاقے کے بااثر افراد وہاں پہنچ گئے اور کسی طرح کارروائی رک گئی۔ ساتھ ہی وہاں کے لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس نے میونسپل کارپوریشن کی کارروائی پر فوراً روک لگا دی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس بستی کو اس وقت تک نہیں گرایا جائے جب تک ہلدوانی کی کارپوریشن وہاں کی آبادی کو پوری طرح منتقل نہیں کرتی۔ مگر کہاں کا سپریم کورٹ اور کیا سپریم کورٹ کا حکم نامہ۔ چند روز قبل پھر میونسپل افسران پولیس کے لشکر کے ساتھ پھر اس بستی میں کارروائی کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ اب لوکل افسراد نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ بستی والوں کی عرضی ہائی کورٹ نے منظور کر لی اور مقدمہ کی سماعت کے لیے چند روز آگے کی تاریخ لگا دی۔ بس اس تاریخ سے قبل افسران نے رات کے اندھیرے میں علاقہ کو گھیر مسجد اور مدرسہ مسمار کر دیا۔

ہلدوانی میں جو کچھ ہوا وہ ریاستی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ مسلم اقلیت کے ساتھ وہی برتاؤ کرتی ہے جو ہندوتوا حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ بی جے پی حکومتوں کا اقلیت کے ساتھ جو سلوک ہے اس سے بھی افسوسناک عدلیہ کا رویہ ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اگر چاہیں تو اس معاملہ پر از خود نوٹس لے سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا تو یہ فرض بنتا ہے کہ وہ میونسپل کارپوریشن اور پولیس افسران کو اس کارروائی سے روکیں۔ لیکن وہاں تو کوئی سننے سنانے کو تیار ہی نہیں ہے۔ آخر بات کیا ہے!


بات صرف اتنی ہے کہ اب اس ملک میں مسلمان ہونا گناہ ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کی لنچنگ ہو سکتی ہے۔ آپ کا مکان-دوکان کسی وقت بھی بلڈوزر سے گرایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور آپ کی مسجد و مدرسہ اور مزار کھلے بندوں مسمار کی جا سکتی ہے۔ مسلمان کے لیے اب اس ملک میں کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ بی جے پی راج میں اس کی زندگی جہنم ہے۔ اس کو نہ تو اب حکومت سے، نہ ہی افسر شاہی اور نہ ہی عدلیہ سے کسی قسم کی امید رکھنی چاہیے۔ ہندوتوا راج میں مسلمان صرف دوسرے درجہ یعنی غلاموں جیسی زندگی جی سکتا ہے۔ اتراکھنڈ کے ہلدوانی ضلع کی مسلم بستی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی اب پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔