اتراکھنڈ: ٹھیک انتخاب سے قبل بی جے پی کی کماؤں پر مرکوز پالیسی کو لگا جھٹکا

گڑھوال میں گرفت کمزور ہونے کے بعد بی جے پی کو اب کماؤں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کرنی پڑ رہی ہے، کئی انتخابی سروے کماؤں میں بی جے پی کے 24 سے گھٹ کر 10 سیٹ تک محدود ہونے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

عین انتخاب سے قبل ہرک سنگھ راوت کے پارٹی سے الگ ہو جانے کے بعد اتراکھنڈ میں برسراقتدار بی جے پی کی انتخابی پالیسی کو جھٹکا لگا ہے۔ اب تک بی جے پی گڑھوال ڈویژن میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے تئیں پراعتماد ہو کر کماؤں پر زیادہ توجہ دے رہی تھی۔ چونکہ بی جے پی کا اصل مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت سے ہی ہے اور ہریش راوت کا آبائی علاقہ کماؤں ڈویژن میں ہی ہے، اس لیے بی جے پی کی توجہ کماؤں پر ہی زیادہ تھی۔

اُدھر گڑھوال علاقہ میں اس کے پاس ہرک سنگھ راوت، ستپال مہاراج، رمیش پوکھریال نشنک اور وجے بہوگنا جیسے لیڈر تھے جن کے زور پر اسے ایک طرح کی بے فکری تھی۔ لیکن ہرک سنگھ راوت کے پالا بدلنے کے بعد گڑھوال میں بھی بی جے پی کی گرفت کمزور ہوئی ہے۔


بی جے پی کے لیے فکر کی ایک اور وجہ ہے، وہ یہ کہ اتراکھنڈ کو لے کر اب تک جتنے بھی سروے آئے ان میں ہریش راوت کو وزیر اعلیٰ کے طور پر سب سے پسندیدہ لیڈر مانا گیا۔ ہریش راوت کے بارے میں ووٹروں کی ایسی رائے کو اسپانسرڈ انتخابی سروے بھی نہیں جھٹلا پائے۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ رہا کہ ہریش راوت کی کاٹ کے لیے کماؤں میں اس کے پاس تنہا بھگت سنگھ کوشیاری تھے جنھیں اس نے گورنر بنا کر مہاراشٹر بھیج دیا۔ کوشیاری پردے کے پیچھے تو سرگرم ہو سکتے ہیں لیکن انتخابی پچ میں فرنٹ فٹ پر نہیں کھیل سکتے۔

حالات ایسے ہیں کہ بی جے پی کو کماؤں میں وسیع مینڈیٹ والے لیڈروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کوشیاری کے بعد دیگر لیڈروں میں بچی سنگھ راوت اور پرکاش پنت کا انتقال ہو چکا ہے۔ یشپال آریہ جیسے بڑے سیاسی قد کے لیڈر واپس کانگریس میں لوٹ گئے ہیں۔ اس کے برعکس کانگریس کے پاس ہریش راوت کے علاوہ گووند سنگھ کنجوال، کرن مہرا اور پردیپ ٹمٹا جیسے لیڈر ہیں۔ کنجوال، مہرا اور ہریش دھامی کا مینڈیٹ ہی ہے جو کہ وہ 2017 کی زبردست مودی لہر میں بھی کانگریس کے ٹکٹ پر جیت گئے۔


خبر گرم ہے کہ کماؤں میں کوشیاری کی کمی پوری کرنے کے لیے ہی بی جے پی نے ان کے سیاسی چیلے پشکر سنگھ دھامی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ جب کہ اجے بھٹ کو رمیش پوکھریال نشنک کو ہٹا کر مرکز میں وزیر مملکت بنایا گیا۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد دھامی بھی کماؤں ڈویژن کا دورہ کرتے رہے ہیں اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے وہ کئی منصوبوں کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نشیبی علاقہ میں سکھ ووٹروں کو متوجہ کرنے اور کسان تحریک کے اثر کو ختم کرنے کے لیے گورنر کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) گرومیت سنگھ کی تقرری کے بعد ان کے ساتھ نانکمتّا گرودوارہ میں پیشانی ٹیک چکے ہیں۔

ویسے حکومت میں اس وقت کماؤں اور گڑھوال کی برابر کی شراکت داری ہے۔ دھامی کابینہ میں دونوں ڈویژن سے 6-6 وزیر ہیں۔ حالانکہ گڑھوال سے بی جے پی کے پاس 34 رکن اسمبلی ہیں، پھر بھی وزراء کی تعداد صرف 6 ہی ہے۔


گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے گڑھوال کی 41 اسمبلی سیٹوں میں سے 34 سیٹیں جیتی تھیں اور کانگریس کے حصے میں صرف 6 سیٹیں ہی آئی تھیں۔ گڑھوال ڈویژن میں 2017 کے انتخاب میں کانگریس کی خراب کارکردگی کے پیچھے مودی لہر کے علاوہ سپتال مہاراج، ہرک سنگھ راوت اور وجے بہوگنا جیسے بڑے لیڈروں کا کانگریس چھوڑ کر بی جے پی خیمہ میں جانا بھی ایک وجہ تھی۔ ان تینوں لیڈروں کا گڑھوال میں مضبوط گرفت رہی ہے، انہی کے دم پر بی جے پی اقتدار مخالف لہر کے باوجود گڑھوال میں جیت کی امید لگائے بیٹھی تھی۔ بی جے پی گڑھوال کو اپنا ناقابل تسخیر قلعہ مانتی رہی، ایسے میں اس نے سارا فوکس کماؤں پر مرکوز کیا تھا۔

لیکن اس وقت حالات مختلف ہیں۔ اس مرتبہ ہرک سنگھ راوت بی جے پی سے رشتہ توڑ چکے ہیں۔ ستپال مہاراج اور وجے بہوگنا کو بری طرح نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ دراصل وزیر اعلیٰ بننے کی آس لے کر بی جے پی میں پہنچے ان لیڈروں کو دھامی جیسے نوسکھیے کا ماتحت بنا دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی انھیں کبھی ترویندر راوت کے ذریعہ تو کبھی تیرتھ کے ذریعہ بے عزت کیا گیا۔ اس کے علاوہ بی سی کھنڈوری اور منوہر کانت دھیانی جیسے سینئر لیڈر ایک طرح سے غیر فعال ہو چکے ہیں۔


بی جے پی نے حد سے زیادہ اعتماد میں پارٹی صدر کا عہدہ مدن کوشک کو دیا، لیکن مدن کوشک کے بڑبولے پن اور عجیب و غریب بیانات کے سبب گڑھوال میں انھیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ لے دے کر ہرک سنگھ راوت بی جے پی کی کشتی کو پار لگا سکتے تھے، لیکن وہ ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔

گڑھوال میں گرفت کمزور ہونے کے بعد بی جے پی کو اب کماؤں سے متعلق بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنی پڑ رہی ہے۔ کماؤں میں 29 سیٹیں ہیں جن میں سے فی الحال 24 بی جے پی کے پاس ہیں۔ لیکن کئی انتخابی سروے اس بار بی جے پی کے 24 سے سمٹ کر 10 تک اور کانگریس کے 5 سے بڑھ کر 20 تک پہنچنے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

(نوجیون انڈیا کے لیے جے سنگھ راوت کے تحریر کردہ ہندی مضمون کا اردو ترجمہ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔