اتر پردیش: یوگی راج میں ایمس تو بنے لیکن کہیں مشینیں بند اور کہیں ڈاکٹروں کی ہی نہیں ہوئی تعیناتی

بلدیاتی انتخاب کے پیش نظر دورہ کر رہے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ریاست میں 4600 ہیلتھ اے ٹی ایم لگ رہے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ وی آئی پی اضلاع میں بھی یہ بے کار پڑے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

کے. سنتوش

مرکزی وزیر صحت منسکھ منڈاویا ابھی حال میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں تھے۔ موقع تھا یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام کے تحت کمیونٹی ہیلتھ افسران (سی ایچ او) کے ساتھ تبادلہ خیال کا۔ منڈاویا نے 31 دسمبر تک ملک میں ڈیڑھ لاکھ ویلنس سنٹر کھولنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ ان سنٹرس پر 171 طرح کی دوائیں ملیں گی۔ یہاں سے ہونے والی ٹیلی کنسلٹنسی سے فی مریض 900 روپے کی بچت ہوگی۔ ایک مریض کو اوسطاً 22 کلومیٹر تک کا سفر نہیں طے کرنا ہوگا۔ وزیر کا دعویٰ ہے کہ ٹیلی کنسلٹنسی سے 7500 کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔

لیکن حقیقت خود وزیر اعلیٰ کے سامنے آ گئی جب ایک سی ایچ او نے کہا کہ انھیں ’ویلنس سنٹر‘ کا انچارج ملنے کے بعد بھی دوا لکھنے کا حق نہیں ہے۔ ٹیلی میڈیسن سروس کا برا حال ہے۔ ضلع اسپتال اور کمیونٹی ہیلتھ سنٹر کے ڈاکٹرس کو ٹیلی کالنگ کے لیے نامزد کیاگیا ہے۔ اب ویلنس سنٹر پر مریض آتے ہیں، تبھی ڈاکٹرس کی او پی ڈی چلتی ہے۔


بہرحال، اتر پردیش میں 13700 ویلنس سنٹرس ہیں۔ بیشتر جگہ ان کا مینجمنٹ اسٹاف نرس اور وارڈ بوائے کے ذمہ ہے۔ دیہی علاقوں کے بیشتر ویلنس سنٹرس میں اسٹاف نرس نہیں جاتی کیونکہ وہ کافی دور ہیں۔ مثال کے طور پر مرزاپور میں ڈرمنڈ گنج ویلنس سنٹر پر پہنچی سنیتا شرما بتاتی ہیں کہ 171 طرح کی دواؤں کی کون کہے، بخار اور کھانسی کی دعوائیں بھی یہاں دستیاب نہیں ہیں۔ بہرائچ کے شیوپور ڈیولپمنٹ بلاک کے اسوا محمد پور گاؤں میں ہیلتھ ویلنس سنٹر میں گزشتہ سال بھر سے تالا لٹکا ہونے کی شکایت پر گزشتہ مہینے سی ایم او ڈاکٹر ستیش سنگھ موقع پر پہنچے تو اطلاع پا کر سی ایچ او بھی دوڑی پہنچیں۔ پھٹکار کے بعد دوسرے دن سی ایچ او سمن سنٹر پر پہنچیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’’سنٹر پر دوا پہنچانے کی ذمہ داری کس کی ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا۔ بغیر دوا کے سنٹر کھولنے پر مقامی لوگ ہنگامہ کرتے ہیں۔‘‘

ان دنوں بلدیاتی انتخاب کو دھیان میں رکھ کر دورہ کر رہے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ریاست میں 4600 ہیلتھ اے ٹی ایم لگ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے وی آئی پی اضلاع تک میں ہیلتھ اے ٹی ایم بے کار پڑے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں یوگی آدتیہ ناتھ نے گورکھپور کے چرگانواں میں مہارانا پرتاپ پرائمری ہیلتھ سنٹر پر ریاست کے پہلے ہیلتھ اے ٹی ایم کا آغاز کیا گیا تھا۔ دعویٰ تھا کہ ایک سیمپل سے 59 طریقے کی جانچ ہوگی، بیشتر مفت اور بقیہ کچھ معمولی فیس میں۔ لیکن یہ پہلا ہیلتھ اے ٹی ایم بھی کب کام کرتا ہے، کب بند، اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔


یہاں جانچ کرانے پہنچے موگلہا کے رمیش منی نے بتایا کہ ’اسپتال‘ کے ذمہ داروں نے بتایا کہ جانچ کے لیے کیمیکل ہی نہیں ہے، پرائیویٹ پیتھالوجی میں جانچ کرا لیں۔ راجدھانی لکھنؤ میں 33 کروڑ روپے خرچ کر 75 مقامات پر ہیلتھ اے ٹی ایم لگے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ جانچ کے لیے ایس جی پی جی آئی کا پیرامیڈیکل اسٹاف دستیاب رہے گا۔ لیکن راجہ جی پورم کے مہندی بیگ کھیڑا سے ملحق محلے میں رہنے والی عائشہ بتاتی ہیں کہ ’’ہیلتھ اے ٹی ایم کیسے آپریٹ ہوگا، اسے بتانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ مئو ضلع کے گھوشی میں سی ایچ سی میں گزشتہ 2 نومبر کو رکن اسمبلی رام بلاس چوہان کے ذریعہ شروع کیے گئے ہیلتھ اے ٹی ایم سے مشکل سے مریض کی جانچ ہو رہی ہے۔ یہاں سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ایس این آریہ کا کہنا ہے کہ ’’ہیلتھ اے ٹی ایم کے لیے وائی فائی کنکشن چاہیے۔ ٹیسٹ کے لیے ضروری کٹ بھی نہیں ہے۔‘‘

چھوٹے موٹے سے لے کر سنگین امراض تک سے متاثر لوگ ہیں۔ یوپی میں ایمس کو لے کر دعوے چاہے جو ہوں، سچائی افسوسناک ہے۔ رائے بریلی سے لے کر گورکھپور تک میں کھلے ایمس میں کروڑوں کی مشینیں ٹیکنیشین کی تعیناتی نہیں ہونے سے زنگ کھا رہی ہیں۔ رائے بریلی ایمس کی شروعات تو 2018 میں ہی ہو گئی تھی، لیکن ڈاکٹرس کی تعیناتی اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ پروفیسر کے 28 عہدوں، ایڈیشنل پروفیسر کے 22 عہدوں، ایسو سی ایٹ پروفیسر کے 18 عہدوں اور اسسٹنٹ پروفیسر کے 32 عہدوں پر تقرری کا عمل ہنوز چل ہی رہا ہے۔


گورکھپور ایمس میں کروڑوں روپے خرچ کر منگوائی گئی ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کی مشینیں ریڈیولوجسٹ کی تعیناتی نہیں ہونے سے 15 ماہ سے بے کار پڑی ہیں۔ بی جے پی کے ہی رکن ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال نے گزشتہ دنوں ملک کے 20 ایمس کی بدحالی کا ایشو راجیہ سبھا میں اٹھایا تھا۔ ڈاکٹر اگروال کا کہنا ہے کہ ’’یوپی سمیت ملک کے بیشتر ایمس میں ضلع اسپتالوں جیسی بھیڑ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے بی ایچ یو کو پوروانچل کا ایمس کہا جاتا ہے۔ یہاں ایم آر آئی کی مشین گزشتہ 28 اکتوبر سے ہی خراب ہے۔ مریضوں کو پرائیویٹ سنٹر میں ایم آر آئی جانچ کرانی پڑ رہی ہے۔

بلیا میں ضلع اسپتال میں لگی سی ٹی اسکین کی مشین جون ماہ میں خراب ہوئی تھی۔ اسے ٹھیک کرانے میں 55 دن لگ گئے۔ سنٹر کے چیف کا کہنا ہے کہ مشین کو ٹھیک کرنے کے لیے دو پارٹس جاپان سے منگائے گئے تھے لیکن وہ خراب نکلے اور انھیں دوبارہ منگانا پڑا۔ گورکھپور ضلع اسپتال میں چار سال پہلے دل کی جانچ کے لیے ایکو مشین منگائی گئی۔ کباڑ مشین کو کنڈم بتانے میں دو سال لگ گئے۔ گزشتہ دو سال سے اسپتال انتظامیہ نئی مشین فراہم کرنے کے لیے کمپنی سے بات چیت کر رہی ہے۔


بستی میں ضلع اسپتال سے لے کر کیلی اسپتال میں ڈیجیٹل ایکسرے مشین خراب ہونے سے مریضوں کو پرائیویٹ سنٹرس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ گردہ والے امراض کے لیے اسپتالوں میں لگی ڈائلیسس مشینیں خراب ہیں۔ گورکھپور بی آر ڈی میڈیکل کالج اور ضلع اسپتال میں ڈائلیسس کے لیے 7 سے 15 دنوں کی ویٹنگ عام بات ہے اور روزانہ 20 سے 25 مریض ڈائلیسس کے بغیر لوٹائے جا رہے ہیں۔ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں اپنی ڈائلیسس یونٹ ہے۔ 10 مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ ان میں سے 5 خراب ہیں۔ دو شفٹ میں 6 سے 8 مریضوں کی ڈائلیسس کی جا رہی ہے۔

کانپور کے ہیلٹ میں برن یونٹ میں 10 کروڑ سے زیادہ کی مشینوں کی خریداری کو لے کر رکن اسمبلی سے لے کر مقامی رکن پارلیمنٹ تک واہ واہی لوٹ چکے ہیں۔ برن یونٹ میں 10 کروڑ روپے کی مشینوں کی خریداری کی تجویز تو منظور ہو گئی لیکن یونٹ کی تعمیر کا کام ہی پورا نہیں ہو سکا ہے۔ ذمہ دار ادارہ سرکاری تعمیرات کارپوریشن کا کہنا ہے کہ 1.31 کروڑ کے بجٹ کے لیے کئی بار بات چیت ہوئی لیکن بجٹ جاری نہیں ہوا۔ ادھوری تعمیر کا معاملہ اچھلا تو حکومت نے 10 کروڑ روپے کی لاگت سے مجوزہ مشینوں کی خریداری پر روک لگا دی۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر وجئے شریواستو کہتے ہیں کہ دہلی کے طرز پر محلہ کلینک کو لے کر یوپی حکومت کئی کوششیں کر چکی ہے، لیکن علاج باتوں سے نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وسائل چاہئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔