ڈاکٹر اقصیٰ شیخ: کورونا سے بخوبی لڑ رہی ہے ہندوستان کی پہلی ٹرانسجینڈر ڈاکٹر

ڈاکٹر اقصیٰ شیخ اس وقت دہلی کے ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس سے منسلک ہیں۔ انھیں یہاں ٹیکہ کاری مہم کا انچارج بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر اقصیٰ شیخ
ڈاکٹر اقصیٰ شیخ
user

آس محمد کیف

38 سالہ ڈاکٹر اقصیٰ شیخ اس وقت ملک میں جاری کورونا بحران کے درمیان مثال بن کر سامنے آئی ہیں۔ کورونا وبا میں وہ اپنے گروپ کے ساتھ اب تک 2000 سے زائد کورونا متاثرہ مریضوں کو منصوبہ بند طریقے سے صحت مند کر چکی ہیں۔ وہ جامعہ ہمدرد کووڈ سنٹر کی نوڈل افسر ہیں۔ یہی نہیں، رمضان کے پورے مہینے روزہ رکھ کر بھی انھوں نے کووڈ سے لڑنے میں بہترین تعاون پیش کیا ہے۔ اس میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اقصیٰ ہندوستان کی پہلی خاتون ٹرانسجینڈر ڈاکٹر ہے، اور انھوں نے اپنی زندگی کے بیشتر سال ذاکر بن کر گزار دیے ہیں۔

ڈاکٹر اقصیٰ کہتی ہیں کہ ’’ذاکر اب ماضی کی بات ہے۔ میری فیملی کے لوگوں کو بہت برا لگا۔ میں دو کردار لے کر نہیں جی سکتی تھی۔ میرے والدین سمجھتے تھے کہ میں لڑکا ہوں، لیکن میرے اندر سے آواز آتی تھی کہ میں لڑکی ہوں۔ میں اپنے اندر جدوجہد کر رہی تھی۔ میں نے تب اپنا گھر چھوڑ دیا اور میڈیکل کی پڑھائی جاری رکھی۔ میں پوری طرح اقصیٰ بن گئی۔ ایک دن تھا جب میں اپنی جان دینا چاہتی تھی اور آج کا دن ہے جب میرے خدا نے مجھے سینکڑوں جان بچانے کا موقع دیا ہے۔‘‘


ڈاکٹر اقصیٰ شیخ اس وقت دہلی کے ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس سے منسلک ہیں۔ انھیں یہاں ٹیکہ کاری مہم کا انچارج بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کووڈ کی اس دوسری لہر میں ایک میڈیکل سوشل گروپ کے سہارے ٹیلی میڈیسن کی مہم چلا کر اب تک دو ہزار سے زائد کورونا مریضوں کو ٹھیک کر چکی ہیں۔ یہاں یہ بھی خاص ہے کہ وہ ہندوستان میں پہلی ایسی ٹرانسجینڈر ڈاکٹر ہیں جنھیں کووڈ ٹیکہ کاری کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ حالانکہ دہلی میں ابھی ٹیکہ کاری رخنہ انداز ہے لیکن اس کے دوبارہ شروع ہونے پر ڈاکٹر اقصیٰ ایک بڑے کردار میں ہوں گی۔

ڈاکٹر اقصیٰ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے اوکھلا میں رہتی ہیں اور اسپتال بنوانے کی جدوجہد میں بھی مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں تمام انسانیت کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔ میں سماج کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ وہ انسانوں کی قابلیت کا اندازہ صرف عورت یا مرد کے طور پر نہیں کر سکتے۔ سماج جنھیں کنّر یا ہجڑا سمجھ کر نیچا سمجھتا ہے وہ بھی نظریہ بدل کر دیکھنے پر بہتر انسان ہوتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر اقصیٰ شیخ: کورونا سے بخوبی لڑ رہی ہے ہندوستان کی پہلی ٹرانسجینڈر ڈاکٹر

ڈاکٹر اقصیٰ نے ممبئی میں تعلیم حاصل کی۔ اتفاق سے وہ جس فیملی میں پیدا ہوئیں وہ تبلیغی جماعت سے جڑا ہے۔ ان کی فیملی نے 20 سال تک ان کی پرورش ذاکر کے طور پر کی۔ فیملی کے لوگ انھیں بیٹا سمجھتے تھے۔ اُن دنوں صرف اقصیٰ اپنے احساسات کو جانتی اور سمجھتی تھی۔ اس دوران انھوں نے ایم بی بی ایس کرنا شروع کیا۔ تب تک انھیں صرف ذاکر ہی جاتا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی فیلنگ یعنی احساسات کو مرنے نہیں دیا۔ تمام طرح کی مشکلوں اور نظر انداز کیے جانے کو برداشت کرتے ہوئے اقصیٰ نے ممبئی کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اقصیٰ دہلی آ گئیں۔ جامعہ سے رشتہ جوڑا اور ایم ڈی بن کر میڈیکل ریسرچ سنٹر میں خدمت کرنے لگی۔

اقصیٰ بتاتی ہیں کہ اب ذاکر کے جیل سے لگنے والے کپڑے وہ نہیں پہنتی تھیں بلکہ کھل کر اقصیٰ بن کر جینے لگی تھیں اور اس طرح جینے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اقصیٰ ایک بہترین ڈاکٹر ہیں اور ان کی صلاحیت اور علم کو اب اعزاز ملنے لگا ہے۔ 4 سال قبل اقصیٰ نے اپنی سرجری کرا لی۔ ٹرانسجینڈر مرد سے وہ ٹرانسجینڈر خاتون بن گئیں۔ اقصیٰ بتاتی ہیں کہ وہ ماں تو نہیں بن سکتی ہیں، جو کہ ان کے من میں ایک ٹیس ہے، مگر اب وہ خود کو پوری طرح آزاد محسوس کرتی ہیں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے قبل کچھ مذہبی علماء سے بھی بات کی تھی۔ اقصیٰ کہتی ہیں کہ علماء حضرات کی مختلف رائے تھی، لیکن میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔


اقصیٰ بھی عام لڑکیوں کی طرح شادی کر کے گھر بسانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اب ممبئی تو جاتی ہیں، لیکن اپنے گھر نہیں جاتیں۔ اقصیٰ کا کہنا ہے کہ میں وہاں نہیں جا سکتی کیونکہ سبھی پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ لیکن میرے کام کے بارے میں جب تعریف ہوتی ہے تو میری فیملی کے لوگوں کو بھی خوشی ہوتی ہے۔ اقصیٰ دہلی میں ایل جی بی ٹی طبقہ کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اقصیٰ کہتی ہیں کہ جب بھی اپنے طبقہ کے لوگ آواز اٹھاتے ہیں تو میں بھی یہی کرتی ہوں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے طبقہ کو بے حد گری ہوئی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس طبقہ کے لوگ چیلنجنگ حالات سے گزرتے ہیں۔ سماج ان پر ہنستا ہے، کوئی بھی ان سے رشتہ نہیں بنانا چاہتا۔ سپریم کورٹ نے ضرور آپسی رشتے کے لیے دروازہ کھولا ہے، لیکن سماج میں اس طبقہ کے لیے بالکل بھی عزت نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ کہیں صلاحیت ہے بھی تو وہ کھل کر سامنے آنے سے جھجکتی ہے۔

اقصیٰ شیخ نے اپنی پہچان ڈنکے کی چوٹ پر بنائی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے بالکل شرم نہیں آتی ہے۔ یہ اللہ کے اختیار کی بات ہے۔ میں نے کبھی خود کو کسی سے کمزور نہیں سمجھا ہے۔ ایک بار ضرور ظلم کا شکار ہونے پر خودکشی کا خیال آیا تھا، لیکن میں نے اس کے بعد خود کو ذہنی طور پر مضبوط بنا لیا۔‘‘


ڈاکٹر کی ذمہ داری نبھانے کے علاوہ ڈاکٹر اقصیٰ نے کئی کتابیں بھی لکھ دی ہیں۔ مختلف میڈیا گروپس میں ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ انھیں ہمالین گرین ایوارڈ اور ناری شکتی ایوارڈ 2020 بھی مل چکا ہے۔ اقصیٰ اب مشہور ہستی ہیں۔ اقصیٰ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’’جب میں اسکول میں پڑھتی تھی تو میرا مذاق بنایا جاتا تھا، مجھ سے کوئی دوستی نہیں کرتا تھا۔ میں کتابوں کے نزدیک چلی گئی۔ کتابوں سے دوستی نے میری زندگی کو بدل دیا۔‘‘

اقصیٰ کو ٹرانسجینڈر طبقہ کے درمیان ٹیکہ کاری مہم میں کامیابی کی اہم کڑی مانا جا رہا ہے۔ اس طبقہ میں ان کی کافی عزت ہے۔ ان دنوں اقصیٰ نے ہیومن سالیڈریٹی فاؤنڈیشن کے ذریعہ سے فری میڈیکل اور مینٹل ہیلپ لائن شروع کی ہے۔ کورونا کی اس دوسری لہر میں وہ کافی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ میرٹھ کی ببلی کنّر کہتی ہیں کہ ڈاکٹر اقصیٰ ان کی قوم کی ہیرو ہیں۔ وہ فلمی نہیں ہیں بلکہ بالکل حقیقی ہیرو ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔