صنعت و حرفت

نوٹ بندی کے نو سال: سرکاری دعووں کی گونج، سیاسی سوالات کی بازگشت اور عوامی یادوں کا بوجھ

نوٹ بندی کے 9 سال بعد بھی سوال باقی ہے- کیا کالا دھن ختم ہوا یا صرف رنگ بدلا؟ حکومت نے دہشت فنڈنگ اور جعلی کرنسی پر لگام کا دعویٰ کیا مگر اپوزیشن نے عوامی تکلیف اور معاشی گراوٹ کو یاد دلایا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

 

آج سے نو سال قبل، 8 نومبر 2016 کی وہ رات جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک قوم سے خطاب کرتے ہوئے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا، آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف بازار اور بینکنگ نظام کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی کو بھی متاثر کیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس قدم کا مقصد کالا دھن، دہشت گردی کی فنڈنگ اور جعلی کرنسی پر قابو پانا ہے۔

Published: undefined

نو سال گزرنے کے بعد سوال پھر وہی ہے—کیا نوٹ بندی اپنے مقصد میں کامیاب رہی؟ آج تک پر شائع رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بند کیے گئے 15.44 لاکھ کروڑ روپے میں سے تقریباً 15.31 لاکھ کروڑ روپے واپس بینکوں میں جمع ہو گئے، یعنی 99 فیصد سے زیادہ رقم نظام میں واپس آ گئی۔ اس سے یہ بحث تیز ہو گئی کہ کالا دھن ختم نہیں ہوا بلکہ بینکنگ نظام کے ذریعے ’سفید‘ بن گیا۔

Published: undefined

اپوزیشن نے حکومت پر الزام لگایا کہ نوٹ بندی نے کالے دھن کو نہیں، بلکہ عام آدمی کو نشانہ بنایا۔ اس دوران بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر طویل قطاروں میں سینکڑوں افراد کی موت کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ چھوٹے کاروبار، غیر منظم شعبے اور دیہی معیشت کو بڑا دھچکا لگا۔ ماہرین معیشت کے مطابق، نوٹ بندی کے بعد جی ڈی پی میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی اور چھوٹے صنعت کاروں کو سنبھلنے میں برسوں لگ گئے۔

نوٹ بندی کے فوراً بعد حکومت نے 2000 روپے کا نیا نوٹ جاری کیا تاکہ نقدی کی قلت کو پورا کیا جا سکے لیکن 2023 میں ریزرو بینک نے انہی 2000 روپے کے نوٹوں کو بھی چلن سے ہٹا دیا۔ یوں لگتا ہے جیسے نوٹ بندی کے فیصلے نے خود اپنی سمت بدل لی۔

Published: undefined

البتہ ایک پہلو پر حکومت اپنے فیصلے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے — ڈیجیٹل لین دین کی تیز رفتار ترقی۔ نوٹ بندی کے بعد لوگوں نے آن لائن ادائیگی کے طریقے اپنانا شروع کیا۔ پے ٹی ایم، فون پے اور گوگل پے جیسی ایپس نے روزمرہ لین دین کو آسان بنا دیا۔ آج ملک میں یو پی آئی کے ذریعے روزانہ 14 کروڑ سے زیادہ ٹرانزیکشن ہوتے ہیں۔

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف نوٹ بندی کو اس تبدیلی کا کریڈٹ دینا درست نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں انٹرنیٹ تک عام رسائی، اسمارٹ فونز کے پھیلاؤ اور آن لائن سہولیات نے بھی اس رجحان کو بڑھایا ہے۔

Published: undefined

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر ڈیجیٹل انقلاب واقعی نوٹ بندی کا نتیجہ ہوتا، تو حکومت کو کم از کم اس کے باقی اثرات کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ کیونکہ جس طرح ڈیجیٹل ادائیگی بڑھی، اسی طرح نقدی پر انحصار رکھنے والے لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا۔

نوٹ بندی کے نو سال بعد بھی بحث جاری ہے، آیا یہ قدم ’بدعنوانی پر وار‘ تھا یا ’عوام پر بوجھ‘۔ سوال یہ ہے کہ جس فیصلے سے ملک ہل گیا، کیا اس کے نتائج واقعی وہی نکلے جن کا وعدہ کیا گیا تھا؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined