صحافیوں پر غداری کے مقدمات قائم کرانے والوں کو سپریم کورٹ کی نکیل...سہیل انجم

سپریم کورٹ نے ونود دوا کے معاملے میں ایک اچھا فیصلہ سنایا ہے، ان لوگوں کو نکیل لگانے میں آسانی ہوگی جو بات بات پر لوگوں کے خلاف غداری کے تحت رپورٹیں درج کرا دیتے ہیں۔

ونود دوا / آئی اے این ایس
ونود دوا / آئی اے این ایس
user

سہیل انجم

ایک زمانہ تھا جب ہندوستان کی عدلیہ کو پورے ملک میں زبردست وقار حاصل تھا۔ خاص طور پر یہاں کا سپریم کورٹ مظلوموں کو انصاف فراہم کرانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ لیکن جب سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی ہے دیگر آئینی اداروں کی مانند عدلیہ کا وقار بھی کم ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایسے فیصلے بھی سامنے آئے ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ فیصلے یا تو حکومت کو خوش کرنے کے لیے دیئے گئے یا پھر ان سے حکومت کو بڑی راحت نصیب ہوئی ہے۔

اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ سپریم کورٹ طاقتور افراد یا حکومت کے قریبی افراد کے معاملات پر فوری طور پر سماعت کرتا ہے جبکہ عام لوگوں کے معاملات کو تعطل میں ڈال دیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال صحافیوں کے خلاف درج کی جانے والی رپورٹوں اور مقدموں کے سلسلے میں بھی دیکھی گئی۔ خاص طور پر ریپبلک ٹی وی کے مالک و سی ای او ارنب گوسوامی کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمے کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے فوری سماعت کی اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی پر روک لگا دی۔ جبکہ ایسے ہی ایک معاملے میں کیرالہ کے صحافی صدیق کپن اور بعض دیگر صحافیوں کے معاملے میں اس کا رویہ دوسرا ہے۔


گزشتہ سات برسوں کے دورا ن یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ اگر کسی نے وزیر اعظم نریندر مودی یا حکومت کے خلاف کوئی بیان دیا یا مضمون لکھا یا کوئی پروگرام کیا تو اس کے خلاف ملک سے غداری کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کرا دیئے جاتے ہیں۔ یہ مقدمات بی جے پی کے لیڈروں، کارکنوں یا ہمدردوں کی جانب سے قائم کرائے جاتے ہیں اور پولیس ایسے معاملات میں بڑی تیزی دکھاتی ہے۔ ونود دُوا اس ملک کے ایک بہت ہی سینئر صحافی ہیں اور پوری دنیا میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ اپنے یو ٹیوب پروگرام ’’ونود دوا شو‘‘ میں حکومت کی ان پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں جن کو وہ عوام کے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔

ان کی یہ ادا نہ تو حکومت کو پسند ہے، نی بھاجپائیوں کو اور نہ ہی آر ایس ایس کے لوگوں کو۔ لہٰذا گزشتہ سال کے ان کے ایک یو ٹیوب پروگرام کو بنیاد بنا کر ہماچل پردیش کے بی جے پی کے ایک چھٹ بھیا نیتا نے غداری کی دفعات کے تحت شملہ میں رپورٹ درج کرا دی۔ شملہ کی پولیس فوراً حرکت میں آگئی اور انھیں اگلے روز ہی شملہ کے متعلقہ تھانے میں حاضر ہونے کا حکم دے دیا۔ جب ونود دوا کو یہ اندیشہ ہوا کہ انھیں پولیس گرفتار کر سکتی ہے تو انھوں نے فوراً سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔


اس مقدمے میں کئی سماعتیں ہوئیں۔ ان کی جانب سے ایک انتہائی سینئر وکیل وکاس سنگھ نے پیروی کی اور سپریم کورٹ کو یاد دلایا کہ 1962 میں کیدار ناتھ سنگھ معاملے میں دیئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہر صحافی کو غداری کے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔ عدالت نے ان کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے جو فیصلہ سنایا اس میں اس نے ونود دوا کے خلاف ایف آئی آر خارج کر دی اور کہا کہ کیدار ناتھ سنگھ مقدمے میں سنائے گئے فیصلے کے تحت صحافیوں کو غداری کی دفعات کے تحت کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

عدالت نے کہا کہ حالیہ دنوں میں میڈیا کے خلاف یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ اگر حکومتیں اپنے نظریات کے مطابق رپورٹیں یا نشریات نہیں پاتیں تو وہ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ان کے خلاف رپورٹیں درج کر لیتی ہیں۔ تاکہ وہ ان کے آگے جھک جائیں یا پھر پولیس کارروائی کا سامنا کریں۔ وہ وقت گزر گیا جب حکومتوں پر محض تنقید کی وجہ سے ملک سے غداری کی دفعہ کے تحت مقدمہ قائم کر دیا جائے۔ ایماندارانہ اور معقول تنقید ایک کمیونٹی کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے نہ کہ کمزور کرنے کا۔


خیال رہے کہ کیدار ناتھ سنگھ معاملے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کے تحت ملک سے غداری کے الزام کی تشریح کی گئی تھی۔ اس کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے واضح کیا تھا کہ کسی بھی شخص کو غداری کے الزامات کے تحت اسی صورت میں سزا دی جا سکتی ہے جب اس کی تقریر یا تحریر تشدد کے لیے اکساتی ہو یا نظم و نسق کو نقصان پہنچاتی ہو۔

ونود دوا کے وکیل نے سماعت کے دوران کہا کہ ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ونود دوا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کے خلاف جو کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں یا لکھ سکتے ہیں۔ وہ حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں۔ البتہ وہ تنقید کسی کو حکومت کے خلاف تشدد پر اکسانے والی نہ ہو۔ اگر پریس کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو حقیقی معنوں میں جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ونود دوا کے خلاف جن دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے ان کے تحت ان کو کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ انھوں نے ایک صحافی کی حیثیت سے کسی مذہب، نسل، زبان، علاقہ، گروپ یا فرقے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔


قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایک دوسرے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ملک سے غداری کی دفعہ کی حدود کی تشریح کی جائے۔ میڈیا کے حوالے سے یہ تشریح ضروری ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آندھرا پردیش کے دو تیلگو نیوز چینلوں کے خلاف درج غداری کے معاملے میں کسی بھی قسم کی کارروائی پر روک لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کے حوالے سے ملک سے غداری کی دفعہ کا جائزہ لے گی۔

صحافی برادری نے ونود دوا کے معاملے میں دیئے گئے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے امید کی ایک کرن روشن ہوئی ہے۔ اس سے قبل عدالت عظمیٰ کے متعدد فیصلوں سے مایوسی ہوئی تھی لیکن یہ فیصلہ مسرت کا باعث بنا ہے۔ چھوٹے شہروں کے صحافیوں کے خلاف کافی کارروائیاں ہوتی ہیں اور انھیں حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے کی وجہ سے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ ان معاملات پر بھی نظر ڈالے اور ان صحافیوں کو راحت دے۔


سیاسی مبصرین کے مطابق دہلی میں سی اے اے مخالف تحریک میں جن کارکنوں نے حصہ لیا تھا ان میں سے کئی پر دہلی میں فساد کرانے کا الزام عاید کیا گیا اور انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ چونکہ ان پر غداری، قومی سلامتی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت کارروئی کی گئی ہے لہٰذا ان کی ضمانتوں کی درخواستیں منظور نہیں ہو رہی ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا، انڈین وومین پریس کور، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور انڈین جرنلسٹس یونین کی جانب سے صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں پر بارہا احتجاج کیا گیا ہے اور پولیس کارروائیوں کی مذمت کی گئی ہے۔

اسی سال جنوری میں کسان تحریک کی رپورٹنگ کی وجہ سے اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی پولیس نے سینئر صحافیوں مرنال پانڈے، راج دیپ سردیسائی، ظفر آغا، پریش ناتھ، اننت ناتھ اور ونود جوزے کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ صحافیوں کے خلاف حکومت کی کارروائی انھیں دھمکانے اور ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے کہا تھا کہ صدیق کپن اور ونود دوا وغیرہ صحافیوں کے خلاف کارروائی سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ ان تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ صحافیوں کے خلاف جو رپورٹیں درج کی گئی ہیں وہ ختم کی جائیں۔


ایڈیٹرس کی ایک عالمی تنظیم انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) اور ایک دوسری تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمات پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ اس نے گزشتہ سال اکتوبر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب میں صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی تھی اور اس سلسلے میں صحافی صدیق کپن اور دیگر صحافیوں کا حوالہ دیا تھا۔ بہر حال امید کی جانی چاہیے کہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے ونود دوا کے معاملے میں ایک اچھا فیصلہ سنایا ہے، ان لوگوں کو نکیل لگانے میں آسانی ہوگی جو بات بات پر لوگوں کے خلاف غداری کے تحت رپورٹیں درج کرا دیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔