کیوں نہ کہوں: فیصلہ ہمارے ہاتھ ہے اور فیصلہ کا وقت آگیا ہے... سید خرم رضا

جدید ذرائع سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہم تیونس میں آئی مثبت تبدیلیوں، معاشی فائدوں یا سماج اور حکومتوں کو گرانے کے لئے کریں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور فیصلہ کرنے کا وقت بھی آ گیا ہے۔

 محمد ابوعزیزی / تصویر بشکریہ سی این این
محمد ابوعزیزی / تصویر بشکریہ سی این این
user

سید خرم رضا

یہ سب کو علم ہے کہ سال 2010 میں تیونس میں انقلاب آیا اور اس انقلاب کے نتیجے میں وہاں کے حکمراں زین العابدین کو 23 سالوں کی حکمرانی کو چھوڑ کر ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی۔ اس انقلاب کی وجہ بظاہر 17 دسمبر 2010 کو تیونس کے قصبے سیدی بوزید سے تعلق رکھنے والے پھل فروش ’’محمد ابوعزیزی‘‘ کا وہ واقعہ ہے جس میں ابو عزیزی نے مقامی سرکاری دفتر کے سامنے خود کو آگ لگالی تھی۔ یہ واقعہ نہ صرف تیونس میں انقلاب کی وجہ بنا بلکہ عرب اسپرنگ یعنی عرب بہار کے نام سے جانا جانے لگا۔

17 دسمبر 2010ء کو دراصل کیا ہوا تھا۔ تیونس کا ایک 28 سالہ پھل فروش محمد ابوعزیزی سڑک کے کنارے ٹھیلہ لگا کر پھل بیچ رہا تھا۔ ہفتہ وار تعطیل کی بنا پر جمعہ کو عام طور سے ابوعزیزی کی بکری زیادہ ہوتی تھی، لیکن اُس دن ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایک جانب بکری نہ ہونے کا تناؤ دوسری جانب اسی دوران مقامی پولیس کی ایک 45 سالہ اہل کار فریدہ حامدی وہاں آئی اور ٹھیلہ لگانے کا بھتہ طلب کرنے لگی۔ عزیزی کے انکار کرنے پر اس خاتون پولیس اہلکار فریدہ نے ابوعزیزی کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا اور راہ گیروں کا راستہ روکنے اور ٹریفک میں خلل ڈالنے کا الزام لگا کر پرچہ کاٹ دیا۔ ضمانت کی کارروائی سے بچنے اور گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے ابو عزیزی نے فریدہ کی منت سماجت شروع کردی، پیروں میں پڑا لیکن اس خاتون افسر نے چالان عزیزی کے ہاتھ میں تھمایا اور اس کا ترازو اٹھا کر آگے چل دی۔


تیونس میں اس وقت گزشتہ 23 سالوں سے زین العابدین بن علی کا بلاشرکتِ غیرے راج تھا۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ابوعزیزی قریب ہی واقع گورنر ہاؤس جا پہنچا۔ اس نے بلند آواز میں گورنر سے فریاد کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اس کی بات نہ سنی گئی تو وہ خود کو نذرِآتش کر لے گا۔ لیکن گیٹ پر موجود گارڈس نے دھکے دے کر اُسے وہاں سے بھگا دیا۔ مایوسی کے عالم میں ابوعزیزی نے قریب کے ایک پمپ سے پٹرول کی بوتل خریدی اور دوبارہ گورنر ہاؤس کے صدر دروازے پر آگیا۔ پٹرول کی بوتل اس نے اپنے سر پر انڈیلی اور دیا سلائی کی رگڑ کے ساتھ ہی ابوعزیزی کا کڑیل جسم مہیب شعلوں میں تبدیل ہوگیا۔ ابو عزیزی کے جسم سے اٹھنے والے شعلوں نے نہ صرف تیونس کو بلکہ عرب کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا تیونس اللہ اکبر اور آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا۔ کچھ ہی ہفتوں میں صدر زین العابدین ملک سے فرار ہو گئے۔ ان کی فراری نے تیونس کو ایک نئے آغاز کا موقع فراہم کر دیا۔ بہت جلد بغاوتوں کی لہر نے پڑوسی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ لہر شام سے خلیج فارس تک پہنچ گئی۔

غریب پھل فروشوں کے ساتھ ہونے والا واقعہ یہ کوئی پہلا یا آخری نہیں تھا اور نہ ہی کسی پھل فروش یا غریب کی خود سوزی کا معاملہ پہلا یا آخری تھا، مگر یہاں پر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ابو عزیزی کا یہ واقعہ حکومت اور سوچ کی تبدیلی کی وجہ کیسے بنا۔ دراصل جب ہم اس کی گہرائی میں جائیں گے تو ہمیں پتہ لگے گا کہ اس انقلاب میں اور عرب بہار میں سوشل میڈیا خاص طور سے فیس بک کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ سارا انقلاب سوشل میڈیا پر لڑا گیا۔ اس کی ویڈیو ایک بلاگر نے فیس بک پر پوسٹ کی اور اس کے بعد ابو عزیزی کے جسم سے اٹھنے اور دکھنے والی لپٹیں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں۔


اس کے بعد اس سوشل میڈیا کا کردار ہم نے مصر، یمن اور بحرین میں بھی دیکھا، لیکن وہاں پر حکومتوں کی تبدیلی کے بعد حالات پھر وہیں پر آگئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی نئی حکومتوں نے نظام میں اصلاحات کے بجائے سوشل میڈیا کو اپنے قابو میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ امریکہ کے آخری صدارتی انتخابات میں روس کے ذریعہ امریکی انتخابات کو ہیک کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔ یعنی سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جو حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں اہم کردار ادا کر نے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے حال ہی میں فیس بک اور وہاٹس ایپ کے خلاف ہندوستان میں بھی کافی ہنگامہ ہوا ہے۔

سوشل میڈیا کے اپنے فائدہ اور نقصانات ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر، وہاٹس ایپ، انسٹاگرام، لنکڈن وغیرہ بات چیت اور رابطہ کے جدید پلیٹ فارم ہیں مگر یہ تجارتی کمپنیوں کے ’ٹول ‘یا آلات ہیں اس لئے یہ کمپنیاں اپنے فائدہ کو ہمیشہ مقدم رکھتی ہیں اور رکھیں گی۔ اس کے لئے چاہے سماج ٹوٹے یا حکومتیں گریں، ان سب چیزوں سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ حکمراں بھی اب ان کے طریقہ کار کو سمجھ گئے ہیں اس لئے اب ان کی توجہ بھی عوامی فلاح و بہبود نہیں بلکہ ان کمپنیوں کو اپنے قریب رکھنا بھر رہ گیا ہے۔ اس کو بہت غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رابطہ کے ان جدید ذرائع کا استعمال ہم کیسے کریں۔ کیا ہم اس کو تیونس میں آئی مثبت تبدیلیوں کے لئے کریں یا معاشی فائدوں کے لئے یا سماج اور حکومتوں کو گرانے کے لئے کریں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور فیصلہ کرنے کا وقت بھی آ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 20 Sep 2020, 8:10 PM