اردو صحافت کے 200 سال: غیر مسلم صحافیوں کی خدمات... سہیل انجم

اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ تمام مذاہب کی زبان ہے۔ اس کے فروغ میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے سبھی شامل رہے ہیں

جان جہاں نما / علامتی تصویر
جان جہاں نما / علامتی تصویر
user

سہیل انجم

جس طرح کسی بھی زبان کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہوتا اسی طرح اردو زبان کا بھی کوئی مذہب نہیں۔ زبانوں کو مذہبوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مذہبوں کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ تمام مذاہب کی زبان ہے۔ اس کے فروغ میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے سبھی شامل رہے ہیں۔ جس طرح ادب و شاعری کی تمام اصناف کے فروغ میں غیر مسلموں کا نمایاں حصہ ہے اسی طرح اردو صحافت کے فروغ میں بھی ان کا کردار بہت اہم ہے۔ بلکہ معاملہ اس سے بھی دو قدم آگے کا ہے۔ یعنی اردو صحافت کا آغاز ہی ہندوؤں نے کیا۔ 22 مارچ 1822 کو کلکتہ سے اردو کا پہلا اخبار شروع ہوا تھا جس کا نام ’’جام جہاں نما‘‘ تھا اور دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ اسے کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ایک غیر مسلم نے جاری کیا تھا۔

ان کا نام ہری ہر دت تھا۔ انھوں نے جس شخص کو اس اخبار کا ایڈیٹر بنایا وہ بھی ہندو تھے اور ان کا نام سدا سکھ لعل تھا۔ ہری ہر دت ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم تھے۔ راجہ رام موہن رائے نے ’’مراۃ الاخبار‘‘ کے نام سے فارسی اور ’’سمباد کومدی‘‘ کے نام سے بنگلہ میں اخبار شروع کیا تھا۔ ہری ہر دت کے والد دیوان تاراچند سمباد کومدی اخبار کے منیجر تھے۔ ہری ہر دت بھی اس اخبار کے انتظام و انصرام میں کسی حد تک شامل تھے۔ بعد میں اس کے مالکانہ حقوق ان کے نام منتقل ہو گئے۔ وہ اردو، عربی، فارسی اور بنگلہ زبان جانتے تھے۔ انھیں اخبار نویسی کا بھی شوق تھا۔ لہٰذا انھوں نے حکومت میں درخواست داخل کی کہ وہ جام جہاں نام سے اردو اور فارسی میں اخبار نکالنا چاہتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے ذو لسانی اخبار جاری کیا۔ سدا سکھ لعل بھی ایک تعلیم یافتہ شخص تھے۔ وہ مصنف اور مترجم بھی تھے۔ ہری ہر دت نے ان کو اپنے اخبار کا مدیر بنا دیا۔


یہ تو ہوئی اردو صحافت کے آغاز کی کہانی۔ ا س کے بعد متعدد غیر مسلموں نے اردو اخبارات کا اجرا کیا۔ جن میں منشی نول کشور کا نام سرفہرست ہے۔ انھوں نے 1858 میں لکھنؤ سے ’’اودھ اخبار‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ وہ بہت معیاری اخبار تھا۔ شروع میں ہفت روزہ تھا۔ پھر ہفتے میں دو بار چھپنے لگا اور پھر روزنامہ ہو گیا۔ ابتدا میں وہ چند صفحات کا تھا لیکن اس کو اتنی مقبولیت ملی کہ اس کے صفحات کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ متعدد نامی گرامی ادیب و صحافی اس کے ایڈیٹر رہے۔ بڑے بڑے ادبا و شعرا اس میں چھپنے کو اپنے لیے فخر محسوس کرتے تھے۔ اردو صحافت اور اردو زبان کے فروغ میں منشی نول کشور کی خدمات زبردست اور ناقابل فراموش ہیں۔

اسی طرح کانپور کے جریدے ’’زمانہ‘‘ کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن نگم کی خدمات کو کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ جنھوں نے اپنے جریدے سے ادبی دنیا کی بے انتہا خدمت کی۔ یہ رسالہ چھیالیس سال تک نکلتا رہا۔ ایک تحقیق کے مطابق اس کے 46 سال کے شماروں میں ادبی اور دیگر موضوعات پر کل 3413 نثری مشمولات اور مختلف اصناف میں کل 4996 منظومات شائع ہوئیں۔ ان کے علاوہ منشی صاحب کے اپنے قلم سے قریباً 370 مضامین تھے جو بیشتر ان کے مستقل عنوان ’’رفتارِ زمانہ‘‘ کے تحت لکھے گئے۔ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ اس رسالے کے صفحات میں ہندوستان کے حالات اور اردو زبان کی بیسویں صدی کے نصف اول کی چشم دید روداد موجود ہے۔


اسی طرح دہلی کالج کے پنڈت دھرم نرائن بھاسکر اور ماسٹر رام چندر کی خدمات نہیں بھلائی جا سکتیں۔ جنھوں نے قران السعدین اور فوائد الناظرین جیسے معیاری اخبارات کے ذریعے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی بھی خدمت کی۔ 1848 کی ایک سرکاری رپورٹ میں قران السعدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ دہلی کالج سے جو اخبارات شائع کیے جا رہے ہیں ان میں قران السعدین بلند ترین معیار کا حامل ہے۔ اس صوبے کا کوئی اخبار بھی اس سے زیادہ متنوع اور قابل قدر معلومات پیش نہیں کرتا۔ قران السعدین مضامین کے تنوع، علمی افادیت اور حسن ترتیب کے اعتبار سے ہندوستان کے منفرد اخبارات میں شمار ہوتا تھا۔

ماسٹر رام چندر ریاضی داں تھے۔ وہ بھی دہلی کالج سے وابستہ تھے۔ وہاں کالج میں سائنس کے استاد اور صحافی تھے۔ انھوں نے 1845 میں اخبار فوائد الناظرین اور 1847 میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ محب ہند جاری کیا۔ ان کی دو کتابوں کی شہرت انگلستان تک پہنچی اور ایک کتاب کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کورٹ آف ڈائریکٹرز نے انہیں ایک خلعت پنج پارچہ اور دو ہزار روپے نقد عطا کیا۔ رام چندر تعلیم نسواں کے بڑے حامی تھے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو محدود رکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کی دلی خواہش تھی کہ بچیاں خانہ داری، علم الصحت اور دوسرے مضامین بھی پڑھیں اور ان کا نصاب لڑکوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ وہ گونگوں اور بہروں کی تعلیم کے بھی طرفدار تھے۔


سردار دیوان سنگھ مفتوں اور میلا رام وفا یا صوفی انبا پرشاد کو کوئی کیسے فراموش کر سکتا ہے۔ دیوان سنگھ مفتوں نے ریاست نام کا اخبار نکالا تھا۔ ان کے نمائندے پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان سے راجے رجواڑے اور ریاستوں کے حکمراں گھبراتے تھے۔ ان کا قسطوار مضمون ’’ناقابل فراموش‘‘ واقعی ناقابل فراموش تھا۔ وہ برسوں تک اس عنوان سے اپنا کالم لکھتے رہے۔ ان دنوں کہا جاتا تھا کہ یا تو برٹش حکومت کے جاسوس پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں یا پھر دیوان سنگھ مفتوں کے۔

مہاشہ کرشن نے 1919 میں لاہور سے روزنامہ پرتاپ جاری کیا تھا۔ وہ ایک مجاہد آزادی بھی تھے۔ اپنے اخبار میں برٹش حکومت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ تقسیم ہند کے بعد یہ اخبار دہلی آگیا اور ان کے فرزند کے نریندر نے اسے پروان چڑھایا۔ اگرچہ اس اخبار کی پالیسی کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن پرتاپ کی صحافتی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔


اسی طرح مہاشہ خوشحال چند خورسند نے 1923 میں لاہور سے روزنامہ ملاپ جاری کیا۔ یہ اخبار بھی تقسیم ہند کے وقت دہلی آگیا۔ اس کو پروان چڑھانے میں شری رنبیر اور دوسروں نے اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی یہ دونوں اخبار دہلی سے نکل رہے ہیں۔ یعنی ان دونوں نے اپنی عمر کی ایک صدی پار کر لی ہے۔ لالہ دیش بندھو گپتا نے بھی آزادی سے قبل ایک اخبار نکالا تھا جس کا نام تیج تھا۔ اس نے بھی صحافت کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا۔

سردار جگت سنگھ نے 1905 میں پاکستان کے پنڈی کھیپ سے ایک ماہنامہ رسالہ ’’رہنمائے تعلیم آف لاہور‘‘ جاری کیا تھا۔ 1962 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر اسے نکالتے رہے۔ انھوں نے اس رسالہ کی عمر ایک صدی تک پہنچا دی۔ وہ آخر وقت تک اس کے مدیر رہے۔ یہ رسالہ1947 تک لاہور سے نکلتا رہا۔ تقسیم وطن کے بعد سردار جگت سنگھ اپنے بیٹے سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر کے ساتھ دہلی آگئے اور یہاں سے انھوں نے اسے یعنی 1947 سے نکالنا شروع کیا تھا۔ یہ رسالہ ایک سو سال سے زائد عرصے تک نکلتا رہا۔ ان کے انتقال کے بعد وہ بند ہو گیا اور قومی آواز کے سابق کارکن جناب ابو نعمان اسے ’’رہنمائے تعلیم جدید‘‘ کے نام سے نکال رہے ہیں۔


ان کے علاوہ بھی اردو کے غیر مسلم صحافیوں کی ایک فوج ہے جس نے اردو صحافت کی زلف گرہ گیر کو سلجھانے میں اپنی عمریں گزار دیں۔ ایسے صحافیوں میں پنڈت ہری چند اختر، لالہ جگت نرائن، فکر تونسوی، جمنا داس اختر، من موہن تلخ، خوشتر گرامی، ظفر پیامی، شانتی رنجن بھٹاچاریہ، جی ڈی چندن، سوم آنند، نند کشور وکرم اور موہن چراغی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت بھی کئی غیر مسلم صحافی اردو صحافت کی زلف گرہ گیر کو سلجھانے میں مصروف ہیں۔ جن میں 90 سالہ اوم پرکاش سونی اور ڈی آر مضطر قابل ذکر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج جبکہ اردو صحافت نے اپنی زندگی کے دو سو سال مکمل کر لیے ہیں مسلم صحافیوں کے ساتھ غیر مسلم صحافیوں کی خدمات کو بھی یاد کیا جائے۔ یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا کہ اردو کا معرکۃ الآرا روزنامہ قومی آواز پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1945 میں جاری کیا تھا جو 2008 تک اردو صحافت کو فروغ دینے میں مصروف رہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔