اردو صحافت کے 200 سال: جنگ آزادی میں اردو صحافت کا حصہ... شاہد صدیقی علیگ

صحافت کو نئی جہت اور بلند آہنگ عطا کرنے والے قلم کار تحریکِ حریت میں صرف گفتار کے غازی بن کر ہی سامنے نہیں آئے، بلکہ انہوں نے وطن عزیز کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے لیے عملی جدوجہد کی۔

مولوی محمد باقر کو شہید کرتے ہوئے انگریز سپاہی/ علامتی تصویر
مولوی محمد باقر کو شہید کرتے ہوئے انگریز سپاہی/ علامتی تصویر
user

شاہد صدیقی علیگ

برصغیر میں اردو صحافت کے سفر کو دو سوسال مکمل ہونے جا رہے ہیں، دوران سفر اسے مختلف پیچ وخم اور نشیب وفراز سے گزرنا پڑا ہے، مگر وہ تمام تر کی پابندیاں، ضبطیاں اور ضمانت جیسی سزائیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی راہ پر گامزن رہی۔ صحافت کو نئی جہت اور بلند آہنگ عطا کرنے والے قلم کار تحریک ِحریت میں صرف گفتار کے غازی بن کر ہی سامنے نہیں آئے، بلکہ انہوں نے وطن عزیز کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے لیے عملی جدوجہد کی۔ پابند سلاسل کی اذیت ناک صعوبتوں کو برداشت کیا، یہاں تک کہ پھانسی کے پھندوں پر بھی لٹکے، لیکن اپنے نصب العین سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔

اردو صحافت کی ابتدا کلکتہ سے مورخہ 27؍مارچ 1822ء کو شائع ہونے دولسانی ہفت روزہ اخبار ’جام جہاں نما‘ سے ہوئی تھی، جس کے مالک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ہری ہردت اور مدیر منشی سدا سکھ لعل تھے، مگر بنیادی طور وہ ایک فارسی اخبار تھا جس کے ساتھ اردو کا ایک ضمیمہ بھی منسلک ہوتا تھا، اخبار کو کمپنی حکام کی تائید وحمایت اور سرپرستی حاصل تھی، تاہم ایک مرتبہ پنجاب کے فرمانروا راجہ رنجیت سنگھ کے متعلق ایک متنازعہ مضمون شائع کرنے کے جرم میں اسے سرکاری معاونت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔


اس اخبار کے پندرہ برس بعد محب وطن اور بے باک صحافی مولوی محمد باقر نے 28؍فروری 1837ء کو ’دہلی اردو اخبار‘ شائع کیا۔ جس کے صفحہ اول پر حضور والا کے عنوان سے بہادر شاہ ظفر کے متعلق روز نامچہ چھپتا تھا، دوسرے کالم میں ’صاحب کلاں‘ کے عنوان سے کمپنی بہادر کے اعلانات اور خبریں چھپتی تھیں۔ اسی اثنا میں پہلی ملک گیر جنگ آزادی کا علم بلند ہوگیا تو مولوی باقر کا اخبار انقلاب کا نقیب بن گیا۔ جنہوں نے 1857ء کے پر آشوب ایام کے نامساعد حالات، مختلف ریاستوں و شہروں کی انقلابی سرگرمیوں اور برطانوی خیمہ کی ہلچل سے قارئین کو مسلسل روشناس کرایا۔ نیز ہرکس وناکس کو برطانوی غلامی کے خلاف پوری شدت سے نبردآزما ہونے کی تلقین کی، جس کی قیمت انہیں 16؍ستمبر 1857ء کو اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔ علاوہ ازیں بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا فارسی خبرنامہ ’سراج الاخبار‘، سید جمیل الدین خاں کا ’صادق الا خبار‘، کریم الاخبار، سید محمد خاں کا ’سیدالاخبار‘ اور منشی امان علی لکھنؤی کے ’کشف الاخبار‘ نے نہ صرف ملک وقوم کی رہنمائی کا فرض انجام دیا بلکہ ان کے فکر اور جذبہ کو بھی فروغ دیا۔

اسی طرح صوبہ جات متحدہ آگرہ و اودھ سے شائع ہونے والے اخبارات میں محمد یعقوب فرنگی محلی کی ادارت میں چھپنے والے ہفت روزہ ’طلسم‘، سحر سامری، آگرہ کے صدر الاخبار، قطب الاخبار، بریلی کا ’عمدۃ الاخبار‘ بدایوں کا ’حبیب الاخبار‘ بنارس کا ’آفتاب ہند‘ اور میرٹھ کا ’پیغام آزادی‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ’طلسم‘ نے انقلابِ اودھ کی تمام روداد اور دگرگوں صورتحال سے قاری کو معتارف کرایا تو بریلی کا ’عمدۃ الاخبار‘ نے اعلانیہ خان بہادر خاں کی حمایت کی اور اخبار کا نام بدل کر ’فتح الاخبار‘ رکھ دیا، اسی روش پر بدایوں کا ’حبیب الاخبار‘ بھی چلا، جنہوں نے فرنگیوں کے خلاف نفرت و عداوت کے شعلوں کو ہوا دی۔ وہیں وسطی ہند کے اردو اخبارات بھی انگریزوں کو جلائے وطن کرنے کی مہم میں پیچھے نہ رہے۔ جن میں ’بھوپال اخبار‘، حکیم اصغر حسین اخگرکا ’عمدۃالاخبار‘ اور مولانا امجد علی اشہری کا ’دبیرالملک‘ شامل تھے۔ ان میں قاری کی دلچسپی سے متعلق تمام سامان اور سرکاری اعلانات شائع ہوتے تھے۔


صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے چھپنے والا اخبار ’کوہ نور‘ مدیر منشی ہر سکھ رائے، گوجر انوالہ سے منشی کنڈا مل کا ’گلزار پنجاب‘ اور منشی دیوان چند کا سیالکوٹ سے ’خورشید عالم‘ وغیرہ نے اردو صحافت کی آبیاری میں اہم کردار اد ا کیا۔ اسی کڑی کے سلسلے کو بہار و بنگال کے اخبارات نے بھی آگے بڑھایا، خصوصاً علماء صادق پوری کے مماثل تحریک گلوخلاصی میں جوش وولولہ پیدا کیا، جن میں پٹنہ کا ’عظیم الاخبار، مظفر پور سے شائع ہونے والا ’اخبار الاخبار‘ اور کلکتہ کا ’دوربین‘ وغیرہ اہم تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی ہند میں مدراس کے ’اعظم الاخبار‘، تیسرا لاخبار‘ اور’ آفتاب عالم، ’جامع الاخبار‘ اور بنگلور کا ’محافظ بنگلور‘ مدیر عبدالحفیظ اور محمد قاسم غم کے ’قاسم الاخبار و اخبار شمس‘ وغیرہ نے عوام کو جھنجوڑنے کا کام بخوبی کیا ہے۔

گورنر جنرل لارڈ کنینگ نے 13؍جون 1857ء کو کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’اس بات کو لوگ نہ تو جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں میں دلّی کے اخباروں نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کر دیئے ہیں، یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عیاری سے انجام دیا گیا ہے۔‘‘


جب ہم جنگ آزادی 1857ء کے آس پاس کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اولین مقصد معاشرہ کی اصلاح کرنا تھا مگر جیسے ہی میرٹھ کے باغی سپاہ نے بغاوت کا صور پھونکا تو اخبارات نے بھی ان کا سینہ بہ سینہ ساتھ دیا۔ لیکن ناکامی کے بعد ’صادق الا خبار‘ کے مدیر سید جمیل الدین خاں کو تین برس کی جیل، ’گلشن نو بہار‘، ’دوربین‘، ’سلطان الاخبار‘ اور ’عمدۃ الاخبار‘ کے ایڈیٹروں کو متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مال و اسباب بھی ضبط کیے گئے، یہی حال بدایوں کے ’حبیب الاخبار‘ کا بھی ہوا۔ جس کے جرم میں اس کے ایڈیٹر کو سزا ملی اور پریس بھی ضبط ہوا۔ جابر فرنگیوں نے صحافت کا گلا گھوٹنے کی حتی الامکان کوشش کی، لیکن جیالے صحافیوں نے سزا بھگتنی منظور کی مگر ان کے آگے سر خم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

بہرکیف وقت کا کارواں کہاں رکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں یک بعد دیگرے انقلابیوں نے صفحہ قرطاس پر اپنی منفرد شناخت قائم کی اور انگریزوں کے ہوش وحواس گم کر دیئے۔ یکم جولائی 1903ء کو کامل آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے حسرت موہانی نے ’اردو معلی‘ جاری کیا، جس کا واحد مقصد غفلت زدہ قوم کو جگا کر ان کو جذبہ حریت پسندی سے سرشار کرنا تھا، تو 1912ء میں مولانا آزاد نے پہلا ہفتہ وار ’الہلال‘ اور نومبر 1915ء میں دوسرا ہفت روزہ البلاغ کی اشاعت شروع کی، ان کے مجاہدانہ قلم سے نکلے ہوئے الفاظ نے انگریزی فلک بوس عمارتوں کی بنیادیں ہلا دیں۔ جنگ آزادی کے ان سپہ سالاروں کے بعد تیسرے مرد مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے 23 ؍فروری 1913ء کو اردو ہفت روزہ ’ہمدرد‘ شائع کیا اور اپنی شعلہ بیانی و کلمہ حق کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس کی مثال مفقود ہے۔


ان کے علاوہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے 1937ء میں قائم کرد ہ اخبار ’قومی آواز‘ نے بھی مادر ہند سے تاجران فرنگ کے اخراج میں اہم رول ادا کیا ہے، آج اب دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے تو قومی آواز بھی وقت کے ساتھ قدم بہ قدم چل کر یعنی نیوز پورٹل کے ذریعہ اپنی خدمات انجام دے رہا۔ 1857ء تا 1947ء وطن عزیز کی آزادی اور قومی یکجہتی کے لیے جدوجہد کا سہرا اردو صحافت کے سر بندھتا ہے، دراصل یہ اخبارات نہیں بلکہ ایک ایسی تحریک تھی۔ جس نے انگریزی توپ اور تختہ دار کی پرواہ کیے بغیر ہندوستانیوں کی نس نس میں حب الوطنی کا ایسا طوفان برپا کیا، جس سے بے بس اور مجبور ہوکر انگریزوں نے ہندوستان کو چھوڑنے میں ہی اپنی خیر وعافیت سمجھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔