اردو صحافت کے 200 سال: پتھر کے عہد سے کمپیوٹر تک... معصوم مرادآبادی

آج جو لوگ رنگین طباعت اور بہترین کاغذ پر اردو اخباروں کا مطالعہ کرتے ہیں، ان میں سے شاید کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ اردو اخبارات کی طباعت کا آغاز پتھروں کی مدد سے ہوا تھا

تصویر بشکریہ فرنٹ لائن
تصویر بشکریہ فرنٹ لائن
user

معصوم مرادآبادی

ہندوستان میں اردو صحافت کی تاریخ لازوال قرباینوں اور جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب شہرنشاط کلکتہ سے اردو صحافت کا آغاز ہوا تو اس کے خدوخال واضح نہیں تھے اور نہ ہی مستقبل کا کوئی خاکہ تھا۔ یہ وہ پرآشوب دور تھا جب ملک پر انگریزوں کا تسلط تھا۔ لکھنے اور بولنے پر پابندیاں عائد تھیں۔ ان مشکل حالات میں ظالم حکمراں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا جوکھم سب سے پہلے اردو صحافت نے اٹھایا اور وہ جنگ آزادی کا ہراول دستہ بن گئی۔ جدوجہد آزادی میں انگریز اردو اخبارات اور اس کے مدیروں سے کس حد تک خوفزدہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے جن لوگوں کو سب سے پہلے سزائے موت دی ان میں ’دہلی اردو اخبار‘ کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر اور ’پیام آزادی‘ کے مدیر مرزا بیدار بخت شامل تھے۔ مولوی محمد باقر کو توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑا دیا گیا اور مرزا بیدار بخت کے جسم پر سور کی چربی مل کر پھانسی دے دی گئی۔ اس دور میں اردو صحافت نے آزادی اور قومی اتحاد کے لیے جو جنگ لڑی، اس کا اندازہ کلکتہ سے شائع ہونے والے قدیم اخبار ’روزانہ ہند‘ کے ایڈیٹر رئیس الدین فریدی کے درج ذیل بیان سے بھی ہوتا ہے:

’’1857 سے 1930-35 تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اورقومی اتحاد کے لیے جنگ کرنے کا سہرا زیادہ تر اردو اخبارات کے سر رہا، کیونکہ ہندی اخبار اس زمانے میں برائے نام ہی تھے۔ انگریزی کے اکثر اخبار انگریزوں کے ہمنوا تھے اور علاقائی زبانوں کے اخباروں کا حلقہ اثر محدود تھا۔‘‘(آجکل، نومبر، دسمبر 1983)

آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ آزادی کی جنگ میں ایک ایسا اردو اخبار بھی پیش پیش تھا، جس کا ایڈیٹر اپنی تقرری سے پہلے یہ شرط منظور کرتا تھا کہ اس کی تنخواہ ’جو‘ کی ایک روٹی اور پانی کا ایک پیالہ ہوگا، جو اسے جیل میں ادا کی جائے گی۔ ہفتہ وار ’سوراجیہ‘ کے نام سے یہ اخبار1907 میں بابو شانتی نرائن بھٹناگر نے الہ آباد سے جاری کیا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس اخبار کے 9 ایڈیٹروں نے بغاوت کے جرم میں گرفتاریوں اور ’کالاپانی‘ کی سزائیں جھیلیں۔ ’سوراجیہ‘ کے آٹھویں ایڈیٹر لدھا رام کو الہ آباد کے سیشن جج رستم جی نے دس سال قید کالا پانی کی سزا سنائی تھی۔


1912 میں اردو صحافت کے افق پر نمودار ہونے والے تین اہم ترین اخباروں کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا، جنھوں نے اردو صحافت کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا ابولکلام آزاد نے کلکتہ سے ’الہلال‘ جاری کیا جبکہ اسی دور میں مولانا محمدعلی جوہر نے دہلی سے ’ہمدرد‘ اخبار کا اجرا کیا۔ مولوی مجید حسن نے بجنور سے ’مدینہ‘ جاری کیا، جو سب سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار ’الہلال‘ کی17 مرتبہ ضمانت ضبط کی گئی۔ جس کے نتیجے میں اس کی اشاعت روک کر مولانا آزاد نے ’البلاغ‘ کا اجراء کیا۔ مولانا محمدعلی جوہرکی گرفتاری کے بعد ’ہمدرد‘ کی اشاعت بھی بند ہوئی۔ مگر ان تینوں ہی اخبارات نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ لاہور سے شائع ہونے والا مولانا ظفرعلی خاں کا ’زمیندار‘ بھی اسی دور کی نشانی ہے۔ ’زمیندار‘ کو اس زمانے میں 22 ہزار روپے ضمانتوں کے طور پر جمع کرانے پڑے۔ اس کے بیس ایڈیٹروں کو قید وبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ اردوصحاف کے بنیاد گزاروں میں سرسید احمدخاں (’تہذیب الاخلاق‘)منشی نول کشور(اوردھ اخبار) مولانا حسرت موہانی (اردوئے معلی) کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔

اردو اخبارات کی یہ جدوجہد محض انگریز سامراج سے لوہا لینے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ابتدائی دور میں تکنیکی دشواریاں بھی اردو صحافت کو دامن گیر رہیں۔ اردو صحافت کے لیے یہ ہراعتبار سے ایک مشکل اور آزمائشوں سے بھرا دور تھا۔ یہ آزمائشیں ایسی پریشان کن تھیں کہ آج کے دور میں ان کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج جو لوگ رنگین طباعت اور بہترین کاغذ پر اردو اخباروں کا مطالعہ کرتے ہیں، ان میں سے شاید کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ اردو اخبارات کی طباعت کا آغاز پتھروں کی مدد سے ہوا تھا۔ آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا سے استفادہ کرنے والوں کو یہ بات بھی نہیں معلوم ہوگی کہ ماضی قریب تک اردو کے اخبارات پیلے مسطر پر کتابت کے دشوار گزار مرحلے سے گزر کر سست رفتار مشینوں پر چھپتے تھے۔ آج ویب آفسیٹ مشینوں کا دور ہے جو چند گھنٹوں میں لاکھوں اخبار چھاپ کر خود ہی فولڈ بھی کر دیتی ہیں، لیکن لیتھو مشینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ساری رات میں ایک دو ہزار اخبار چھاپنے پر ہی قادر تھیں۔ مشین میں کاغد کو ہاتھ سے لگانا پڑتا تھا اور سیاہی بھی ہاتھ سے ڈالنے پڑتی تھی۔ پھر ایک بائنڈر انھیں فولڈ کرتا تھا اور ہاکر اپنے کاندھے پر اٹھاکر بیچنے نکلتا تھا۔ آج اخبارات کی دنیا یکسر بدل چکی ہے۔ کتابت وطباعت کے دشوار گزار مراحل سے نجات مل چکی ہے اور اردو اخبارات ٹیکنالوجی کے میدان میں انگریزی اور دیگر ترقی یافتہ زبانوں سے آنکھیں چار کر رہے ہیں۔ حالانکہ وسائل آج بھی محدود ہیں۔


آزادی کے 5 سال بعد 1952 میں پہلا پریس کمیشن وجود میں آیا جس نے فوری طور پر رجسٹر ار آف نیوز پیپرس آف انڈیا (آراین آئی) کے قیام کی پر زور سفارش کی تاکہ وہ اخبارات کے سرکو لیشن اور اعداد وشمار کی رپورٹ ہر سال وزارت اطلاعات ونشریات کو پیش کرے۔ آراین آئی کی اولین رپورٹ 1958میں منظر عام پر آئی جس میں 1957 کے اعداد وشمار پیش کیے گئے تھے۔

19اکتوبر1961 کو نئی دہلی میں اردو اخبارات اور کتب کی کل ہند نمائش کے موقع پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا کہ ’’متحدہ ہندوستان میں اردو اخبارت اور جرائد کی مجموعی تعداد 415 تھی جو تقسیم وطن کے بعد 345 رہ گئی یعنی 70 اخبارات تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے حصے میں چلے گئے۔ رجسٹرار نیوز پیپرس آف انڈیا کی پہلی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 1957 میں ہندوستان میں اردو اخبارات اور جرائد کی کل تعداد 513 تھی۔ یعنی آزادی کے بعد پہلی دہائی میں سخت پریشانیوں کے باوجود اردو اخبارات وجرائد کی تعداد میں 168 کا اضافہ درج ہوا۔ اس سے اردو زبان کی تخلیقی قوت ظاہر ہوتی ہے۔ 1957 میں 513 اخبارات میں سے جن 292 اخبارات نے اپنی تعداد اشاعت آر این آئی کو فراہم کی تھی ان کا مجموعی سرکولیشن 7 لاکھ 84 ہزار تھا۔ یہ تعداد ملک کی تمام زبانوں کے اخبارات کی کل تعداد اشاعت کا 7 فیصد تھی، جبکہ اردو صحافت کا مقام انگریزی، ہندی اور تمل کے بعد چوتھے نمبر پر تھا۔ آزادی کی پچاسویں سالگرہ پر 1997 میں پیش کی گئی آراین آئی کی سالانہ رپورٹ میں تعداد کے اعتبار سے اردو صحافت ہندی اور انگریزی کے بعد تیسرا مقام حاصل کرچکی تھی، لیکن آج صورتحال یہ نہیں ہے۔

اردو صحافت کی جدیدکاری کا خیال ہمارے پرکھوں کو ابتدا سے ہی تھا۔ اردو اخبارات کو جدید تر بنانے اور انہیں عالمی صحافت کے مقابلے میں لانے کی اولین کوشش سر سید احمد خاں نے کی۔ وہ 1870 میں جب لندن سے واپس آئے تو اپنے رسالہ ’’تہذیب الا خلاق‘‘ کے ٹائٹل کا ڈیزائن بنوا کر لائے تھے جس کا اجرا انہوں نے دسمبر 1870 میں کیا۔ سر سید احمد خاں کو اپنے رسالے کے گیٹ اپ کی بڑی فکر تھی۔ وہ اس کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ سرسید کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو صحافت کو طباعت اور گیٹ اپ کے اعتبار سے آسمان پر پہنچایا۔

مولانا آزاد نے اپنے اخبار ’’الہلال‘‘ کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ترکی ٹائپ در آمد کیا لیکن یہ ٹائپ خط نسخ پر مشتمل تھا اور نسخ کو اردو والوں نے شرف قبولیت عطا نہیں کیا تھا اور وہ اردو کے لیے خط نستعلیق کو قبول کرچکے تھے۔ نستعلیق کو ٹائپ کے قالب میں ڈھالنے کی کوششیں تقریباً ایک صدی سے ناکام ہو رہی تھیں۔ ایک طویل عرصہ اسی جدوجہد میں گزر گیا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اردو طباعت کو کتابت سے نجات نہیں ملے گی جو کہ اخبارات کی تیزروی سے قطعی ہم آہنگ نہیں تھی۔ آخر کار اکتوبر1981 میں اردو دنیا کو یہ مژدہ سننے کو ملا کہ پاکستان کے روز نامہ ’’جنگ‘‘ نے اپنے لاہور ایڈیشن کا آغاز نستعلیق ٹائپ کمپیوٹر کی مدد سے کر دیا ہے۔ انگلینڈ کی مونو ٹائپ کارپوریشن کمپنی کے اشتراک سے دو مطلوب الحسن سید اور احمد مرزا جمیل نے اس خواب کو تعبیر بخشی۔ انھوں نے نوری نستعلیق کے نام سے دنیا کا پہلا اردو سافٹ ویئر ایجاد کرلیا۔ ابتدا میں اس سافٹ ویئر کی قیمت ایک لاکھ 25 ہزار تھی اور اسے ہندوستان میں سب سے پہلے جالندھر سے شائع ہونے والا اردو روزنامہ ’’ہند سما چار‘‘ نے در آمد کیا تھا۔


اردو صحافت کی دنیا میں ایک اور انقلاب مئی 1992 میں اس وقت برپا ہوا جب خبر رساں ایجنسی یو این آئی نے اپنی اردو سروس کا آغاز کیا۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی اردو خبررساں ایجنسی تھی اور آج بھی اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ خبروں کی فراہمی کے لیے اردو اخبارات کو انگریزی زبان کی ایجنسیوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا لیکن یو این آئی اردو سروس کے آغاز سے اردو اخبارات کا ایک بڑا درد سر دور ہوا۔ آج دورو درشن اور ریڈیو کے علاوہ ملک کے بیشتر اردو روزنامے یو این آئی اردو سروس سے استفادہ کر رہے ہیں۔

اردو صحافت آج بھی ایک مقصد اور عقیدے سے وابستہ ہے۔ بعض دیگر زبانوں کے اخبارات مقابلہ آرائی کی اندھی دوڑ میں ہر روز صحافتی اخلاقیات اور ذمے داریوں کو پیروں تلے روند رہے ہیں اور یہ اخبارات مکمل طور پر جنس بازار بن کر رہے گئے ہیں لیکن اردو صحافت آج بھی خود کو ان آلائشوں سے بچائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے صارفیت کے اس دور میں جبکہ انسانی اور اخلاقی قدروں کا تیزی سے زوال ہو رہا ہے، ایسے میں اردو اخبارات کا یہ رویہ قابل قدر ہے۔ آج بھی اردو کے اخبارات عریاں تصاویر، فحش مواد اور ہیجان انگیز خبروں کے بجائے اخلاقی درس، مذہبی رواداری اور معیاری خبروں سے مزین ہوتے ہیں۔ اردو صحافت کی بنیاد میں ایثار وقربانی، محنت ومشقت، جاں سوزی، اصول پسندی، اخلاقیات اور مقصدیت کی جو اینٹیں رکھی گئی تھیں، اردو صحافت آج بھی ان ہی پر کھڑی ہوئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔