ہم کہاں سے آئے ہیں، ہڑپا کے لوگوں کی زبان... وصی حیدر

مختصراً ڈی این اے اور کھدائی دونوں کی تحقیقات سے ایک ہی بات ثابت ہوئی ہے کہ ہڑپا کے لوگوں میں ایران کے زغروس کے لوگوں کی ملاوٹ ہے۔ دونوں جگہوں کے اہم رشتہ کا تیسرا ثبوت بولی اورلکھی جانے والی زبان ہے۔

پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
user

وصی حیدر

(30 ویں قسط)

اس بات کا ذکر کچھ پہلے کی قسطوں میں ہوچکا ہے کہ پرانے انسانی ڈھانچوں کے جینس کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ ہڑپا کی تہذیب مغربی علاقہ کے لوگوں میں جیسے ایران کے زغروس علاقہ کے لوگوں کی کافی ملاوٹ ہے، جو موجودہ ہندوستان کے تمام لوگوں میں اب بھی پائی جاتی ہے، پہلے گروپ سے حاصل ہوئے ڈی این اے کا ثبوت ایران کے زغروس علاقہ سے ہے جو 8000-7000 قبل مسیح پرانا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اور لوگوں کے برخلاف ان لوگوں میں مغربی ایشیا اور یورپ کے علاقوں کے جینس ہیں اور ان میں ترکی کے آس پاس کے علاقہ کے جینس کی ملاوٹ نہیں ہے۔

دوسرے گروپ کا ڈی این اے وادی سندھ کے مغربی علاقہ کے تین ڈھانچوں کا ہے، جن میں 14 سے 42 فیصدی افریقہ سے آنے والے پہلے ہندوستانیوں کا ہے اور باقی حصہ ایران کے لوگوں کے جینس کا ہے اور ان میں بھی ترکی کے لوگوں کی جینس کی ملاوٹ نہیں ہے۔


ان تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ شائد ہڑپا کے آس پاس کے علاقہ میں ایران کی طرف سے آئے ہوئے ان لوگوں کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور یہ در اصل ہڑپا کے لوگوں کے جینس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جن میں زغروس کے پہاڑی علاقوں اور پہلے ہندوستانی جینس کی ملاوٹ ہے۔ اور یہ ملاوٹ 3000-5000 قبل مسیح کے دوران ہوئی۔ غور طلب یہ ہے کہ ان نتیجوں پر پہنچنے کے لئے کھدائی سے معلوم ہوئی اطلاع کا کوئی دخل نہیں ہے، جس کا ذکر نیچے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھدائی سے حاصل ہوئی معلومات کا بھی یہی نتیجہ ہے۔

اس بات کا ذکر بھی پہلے ہوچکا ہے کہ ایران کے زغروس علاقہ اور پاکستان کے بلوچستان کے مہر گڑھ کی بستیوں میں بہت مشابہت ہے۔ پتلی اینٹوں سے بنے چوکور گھر، کھانا پکانے کے گول چولہے، جن میں گرم گول پتھر کا استعمال ہوتا تھا، اس کے علاقہ مختلف طرح کے سلسلہ وار طریقے سے بنے برتن وغیرہ، دونوں جگہوں پر ایک جیسی ہیں۔


مختصراً ڈی این اے اور کھدائی دونوں کی تحقیقات سے ایک ہی بات ثابت ہوئی ہے کہ ہڑپا کے لوگوں میں ایران کے زغروس کے لوگوں کی ملاوٹ ہے۔ دونوں جگہوں کے اہم رشتہ کا تیسرا ثبوت بولی اور لکھی جانے والی زبان سے ہے۔

مغربی ایشیا کے لوگ کون سی زبان استعمال کرتے تھے اس سوال کا صحیح جواب ہم صرف اس وقت سے ہی دے سکتے ہیں جب سے (3500 قبل مسیح) زبان کی لکھائی شروع ہوئی۔ میسوپوٹامیا کی زیادہ تر زبانیں تصویروں کی شکل (کیونیفارم) میں لکھی جاتی رہیں اور پھر یہ طریقہ تین ہزار سال بعد ختم ہوا جب الفاظ ایجاد ہوئے۔


مغربی ایشیا کی پرانی زبانیں جو کیونیفارم طریقہ کار سی لکھی جاتی تھیں وہ سومیرین، ایلامائٹ، ہٹسک، ہرین، یوزیریٹن، اکاڈین، ابالائٹ، ارمورائٹ، ہٹنائٹ اور ابلائٹ ہیں۔ ان سب زبانوں کی لکھائی کو ماہرین پڑھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن اب ان کا کہیں پر بھی استعمال نہیں ہوتا ہے۔ یہ ساری زبانیں مغربی ایشیا میں مختلف وقتوں میں مختلف حکومتوں کے وقت رائج ہوئیں اور پھر ختم ہوگئیں۔

پرانے ڈی این اے سے حاصل ہوئی معلومات سے یہ پتہ چلا کہ زغروس کے لوگوں اور پہلے آئے ہوئے ہندوستانیوں کے بیچ ملاوٹ 3000 قبل مسیح سے پہلے ہوئی، لیکن کتنا پہلے یہ نہیں معلوم ہوسکا۔ ہم کو یہ معلوم ہے کہ بلوچستان کے مہر گڑھ میں شروعات تقریباً 7000 قبل مسیح میں ہوئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زغروس کے لوگ سندھ ندی کے آس پاس کے علاقہ میں 7000 اور 3000 قبل مسیح کے دوران ہی آئے اور یہاں گھل مل گئے۔ یہ آنے والے لوگ اپنے ساتھ آخر کون سی زبان لائے۔


سب سے زیادہ امکان ہے کہ زغروس سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ الامائٹ زبان لائے، لیکن ایران اور گلف کے علاقہ میں پہلی بڑی حکومت 2700 قبل مسیح میں بنی ،لیکن ہم کو یہ معلوم ہے کہ ایران سے آنے والے اس تاریخ سے بہت پہلے آئے۔ یعنی وہ اس وقت آئے جب کھیتی کی شروعات تھی اور بڑے شہر نہیں بنے تھے، بہت لوگ تب بھی خانہ بدوش تھے اس لئے وہ اپنے ساتھ الامائٹ کا شروعاتی نسخہ لائے ہوں گے۔ آنے والے ان لوگوں میں سے کچھ گاؤں میں رک گئے اور کھیتی کے کام میں لگ گئے، لیکن کچھ لوگ اب تک جانوروں کے ریوڑ کو مختلف چراگاہوں میں گھومتے پھرتے ہیں، مثلا بلوچستان کے براہی جو بوراہی بولتے ہیں جو کافی حد تک الامائٹ سے ملتی جلتی زبان ہے۔ ان باتوں کے بعد سب سے بہت قیاس یہ ہے کہ 7000 قبل مسیح کے آس پاس ہی ایران سے یہ لوگ اپنے ساتھ الامائٹ کا پرانہ نسخہ لائے، جو اس علاقہ کی زبان نہیں اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

میک الپائن اور فرنکلین ساتھورڈ نے اپنے تحقیقاتی مضمون میں دراوڑ زبان کو اکھٹا کرکے تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کے دراوڑ زبان کا یہ پرانہ نسخہ یہی ہے، جس ست ساری دراوڑ زبانیں جیسے تامل، ملیالم، کنڑ، تیلگو اس کے علاوہ کونڈی یا اور بھی کئی زبانیں ہیں۔ دراوڑ زبان کا یہ نسخہ اس انسانی آبادی کی زبان بنی جو جانوروں کے ریوڑ، بھیڑ، بکری وغیرہ کو پالتا تھا اور کھیتی کے بارے میں بہت معمولی جانکاری تھی۔ ان جانور کے لئے اور چراگاہوں کے لئے وہی الفاظ استعمال ہوئے جو ایران کے زغروس کے لوگ استعمال کرتے تھے۔

وادی سندھ کی زبان کے بارے میں کچھ اور باتیں اگلی قسط میں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */