بنگال چناؤ: نریندر مودی سیر تو ممتا بنرجی سوا سیر ...ظفر آغا

اگر مودی ہندو ہردے سمراٹ بننا چاہ رہے ہیں تو ممتا بنگالی ہندو ہی نہیں بلکہ بنگال ہندو-مسلم اور عورت سب کے تحفظ کے لیے درگا ماں کا روپ لیے کھڑی ہیں۔ اب اس کانٹے کی جنگ میں دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا!

ممتا بنرجی / آئی اے این ایس
ممتا بنرجی / آئی اے این ایس
user

ظفر آغا

اگر نریندر مودی سیر تو ممتا بنرجی سوا سیر! جی ہاں، لگتا یہی ہے کہ بنگال میں اونٹ پہاڑ کے نیچے آ گیا۔ تب ہی تو سارے ہندوستان کی نگاہیں بنگال کے اسمبلی چناؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ یوں تو اس ماہ کے آخر سے اگلے ماہ کے خاتمے تک چار ریاستوں اور ایک یونین ٹیریٹری میں چناؤ ہونے ہیں، بنگال کے ساتھ آسام مشرق میں تو ادھر تامل ناڈو اور کیرالہ جنوب میں اور کیرالہ سے ملی ہوئی یونین ٹیریٹری پڈوچیری میں چناوی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اخبار ہوں، ٹی وی ہوں یا پھر چائے خانے اور گھروں کی ڈنر ٹیبل، ہر جگہ چرچا ممتا بنرجی کی ہے۔ ہر کس و ناکس بس یہی اٹکل لگا رہا ہے کہ ممتا اور مودی کے گھمسان میں فتح کس کی ہوتی ہے! کیا ممتا بنرجی بنگال میں ہندوتوا کا ریلا اور سیلاب روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی؟ یا پھر نریندر مودی بنگال جیت کر وہاں ایک نئی تاریخ رقم کریں گے؟ اس کا دو ٹوک جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ ٹکر کانٹے کی ہے اور دونوں جانب سے مقابلہ زبردست ہے۔ ایک طرف مودی تو دوسری طرف ممتا، دونوں نے ہی اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔

جہاں تک نریندر مودی کا سوال ہے تو مودی چناؤ جیتنے کے بادشاہ ہیں۔ کسی کو پسند ہوں یا نہیں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودی چناوی ساحر ہیں جو بدترین حالات میں بھی اپنی پارٹی کو چناؤ جتوا دیتے ہیں۔ تب ہی تو نوٹ بندی کی مار کے باوجود مودی نے 2019 لوک سبھا چناؤ میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ مودی کا چناؤ جیتنے کا جو نسخہ ہے، وہ ہے بڑا کارگر۔ مودی عوامی نفسیات کے بادشاہ ہیں۔ ان کی سیاست کا میدان عوامی نفسیات ہے۔و ہ پہلے عوام کے ذہنوں میں ایک دشمن کا خوف پیدا کرتے ہیں، وہ نفسیاتی طور پر عوام میں عدم احساس تحفظ پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً، گجرات میں دنگوں سے پہلے گودھرا ریل حادثہ میں پچاس ہزار ہندو ٹرین میں جل کر راکھ ہو گئے۔ شور مچ گیا کہ مسلمانوں نے مار ڈالا۔ گجراتی ہندو میں عدم احساس تحفظ پیدا ہوا۔ پھر دنگے ہوئے۔ ہزاروں مسلمان مار دیے گئے۔ مودی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ پھر مودی جی نکلے اور اپنی چھپن انچ چھاتی کے ساتھ انھوں نے گجراتی مسلمانوں کو ’ٹھیک‘ کرنے کا نفسیاتی پیغام دیا۔ بس کیا تھا، ڈرا-سہما گجراتی ہندو نے مودی کو ’ہندو ہردے سمراٹ‘ مان کر گجرات بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا۔ یہ نفسیاتی حکمت عملی تھی جس میں ایک ٹرین حادثہ کا فائدہ اٹھا کر مودی نے گجراتی ہندوؤں میں عدم احساس تحفظ اور مسلمانوں کے تئیں نفرت کی آگ سلگائی اور پھر خود تقریر اور حکومت کے اقدام کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہی ہندوؤں کو مسلمان سے بچا سکتے ہیں۔ ایسے ہی انھوں نے پلوامہ میں پاکستانی دہشت گردانہ حملے کے بعد بالاکوٹ پر ائیر اسٹرائیک کر عام ہندوستانی کو یہ احساس پیدا کروا دیا کہ اگر پاکستان حد سے بڑھ جائے تو گھبرائیے مت، مودی پاکستان کو ٹھیک کرنے کو کافی ہے۔ یعنی مودی کی سیاست تشخص کی سیاست ہوتی ہے جس میں اکثریتی گروہ کے تشخص پر ایک اقلیتی گروہ کے لوگ حملہ آور ہوتے ہیں اور مودی اکثریت کو اس دشمن سے بچا کر اکثریت کا ووٹ جیت لیتے ہیں اور بی جے پی راج کرتی ہے۔


لیکن نریندر مودی بھی جیسا عرض کیا، اپنی سیاست کے بادشاہ ہیں۔ وہ جہاں پر بی جے پی کے کمانڈر بن کر جاتے ہیں، وہاں وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ آپ واقف ہیں کہ بی جے پی ہر چناؤ میں پیسہ پانی کی طرح بہاتی ہے۔ بنگال میں تو مودی جی کی ساکھ داؤ پر ہے۔ اس لیے لوگ کہتے ہیں پیسہ ہی کیا، ہر قسم کے وسائل وہاں پانی کی طرح بہائے جا رہے ہیں۔ خود ممتا کی پارٹی ترنمول کانگریس سے ممتا کے خاص لوگوں کو عین چناؤ سے قبل توڑ لیا گیا۔ لیکن ممتا نے اس کو فوراً بنگالی عزت پر حملے کا روپ دے دیا۔ یعنی پھر سے بی جے پی کو بنگال پر حملہ آور ہونے کا رنگ دے دیا۔ صرف اتنا نہیں، ممتا اس تشخص کی جنگ کو ہر سرحد پر تشخص کے ہتھیار سے ہی لڑ رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس لاؤ لشکر کے ساتھ بی جے پی بنگال کا چناؤ لڑ رہی ہے اس سے بنگالی مسلمان میں عدم احساس تحفظ پیدا ہونا فطری ہے۔ چنانچہ ممتا نے بنگال کی تقریباً 30 فیصد مسلم آبادی کے ساتھ کھڑا ہو کر خود کو ’مسلم انگ رکشک‘ کا بھی روپ حاص کر لیا ہے۔ مودی سے ڈرا مسلمان اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہا ہے کہ صرف ممتا کو ووٹ دینے میں ہی اس کی بقا ہے۔ ممتا کی یہ حکمت عملی اس قدر کامیاب ہے کہ اسدالدین اویسی جیسے لیڈر بنگالی مسلم ووٹ بینک میں ابھی تک سیندھ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پھر ممتا ایک اور تشخص کا کارڈ کھیل رہی ہیں۔ وہ خود عورت ہیں اور انھوں نے عورتوں کے لیے ڈھیر ساری اسکیمیں چلا کر بنگالی عورتوں کا ایک الگ ووٹ بینک بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔

الغرض بنگال میں اگر نریندر مودی ہندوتوا تشخص کا کارڈ کھیل رہے ہیں تو ان کے مقابلے میں ممتا بنرجی جواباً بنگالی تشخص کا کارڈ استعمال کر رہی ہیں۔ اگر مودی جی ہندو ہردے سمراٹ بننا چاہ رہے ہیں تو ممتا محض بنگالی ہندو ہی نہیں بلکہ بنگال ہندو-مسلم اور عورت سب کے تحفظ کے لیے درگا ماں کا روپ لیے کھڑی ہیں۔ اب اس کانٹے کی جنگ میں دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا! لیکن ایک بات طے ہو چکی ہے کہ بنگال میں اگر مودی سیر تو ممتا سوا سیر۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Mar 2021, 9:14 AM