ہم کہاں سے آئے، ہڑپا کے لوگوں کی زبان... وصی حیدر

ایران کے کرمنشاہ صوبہ میں بہشتاں (جو ذرگوش پہاڑیوں کی حد ہے) پہاڑی پر ایک بیش قیمتی کتبہ دریافت ہوا جس پر تین زبانوں میں ایک ہی بات لکھی ہوئی ہے۔

پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
user

وصی حیدر

(29 ویں قسط)

کیونیفارم اسکرپٹ کی پڑھ پانے کی کہانی (جس کی مدد سے سمیرین، اکاڈین اور ایلامائٹ زبانوں کو پڑھا جاسکا) ویسی ہی ہے جیسا کہ مصر میں پائے گئے روزیٹا پتھر پر تین زبانوں میں لکھائی سے مصر میں تصویروں کے ذریعہ لکھے ہوئے کتبوں کو پڑھا جاسکا۔ ان سب کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ شاید اسی طرح ہم ہڑپا کے لوگوں کی زبان کی زبان کو سمجھ پائیں، جس کی مدد سے اس عظیم اور حیرت انگیز تہذیب کے بارے میں بہت ساری چیزوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

ایران کے کرمنشاہ صوبہ میں بہشتاں (جو ذرگوش پہاڑیوں کی حد ہے) پہاڑی پر ایک بیش قیمتی کتبہ دریافت ہوا جس پر تین زبانوں میں ایک ہی بات لکھی ہوئی ہے۔ یہ کتبہ عظیم بادشاہ ڈارئس اول (486-522) قبل مسیح کا لکھا ہوا یہ اعلان ہے، اس کتبہ کی مدد سے کیونیفارم اسکرپٹ کو پڑھا جاسکا۔ اس کتبہ میں پرانی فارسی، ایلامائٹ اور بیبلون کی ایلامائٹ زبانوں میں ایک ہی کہانی لکھی ہے، اس وقت فارس کی حکومت دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھی جو سندھ ندی کے پاس سے بہر روم تک پھیلی ہوئی تھی۔

اس کتبہ میں سب سے پہلے بادشاہ ڈائرس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں، اس کے علاوہ خاندان میں وہ نواں بادشاہ ہے۔ اور اس سے پہلے عظیم بادشاہ سائرس کوکمبیس دوئم کا ذکر ہے اور یہ کہ حکومت کے باغیوں سے اس نے ایک سال میں 19 جنگیں جیت کر حکومت کو مسحتکم کیا۔ ڈائرس اس کتبہ سے یہ اعلان کرتا ہے کہ بڑے خدا ’’اہور مزدہ‘‘ کی عنایت سے اس کو ہر لڑائی میں جیت ہوئی۔

بہشتان کتبہ 25X15 میٹر کا ہے اور پہاڑی پر تقریباً 100 میٹر اونچائی پر نصب ہے اس لئے اس کو پڑھ پانا کافی مشکل کام تھا اس کتبہ پرلکھائی کے علاوہ بادشاہ ڈائرس کی قد آدم کھدی ہوئی شکل دو نوکروں کے ساتھ نو باغی غلاموں کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

ایران کے اکیمیڈ خاندان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد فارسی کا پرانا کیونیفارم اسکرپٹ کا استعمال ہی ختم ہوگیا اور اس کتبہ کی اصل کہانی دب گئی اور اس سے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئیں۔ ایک کہانی میں بجائے عظیم بادشاہ ڈائرس کے اس کتبہ کو خسرو دوئم بادشاہ کے نام سے منصوب کر دیا گیا جو تقریباً ایک ہزار سال بعد آئے۔ یہ کہانی مشہور ایرانی شاعر فردوسی نے سن 1000 میں اپنی کتاب ’’شاہ نامہ‘‘ میں بہشتاں پہاڑی کے آس پاس کے علاقہ میں فرہاد اور شیریں کے قصہ میں لکھی ہے۔

فرہاد کو شیریں سے عشق ہوا جو بادشاہ خسرو کی بیوی تھی۔ فرہاد کو یہ حکم ہوا تم اس پہاڑ کو کاٹو اور جب تم یہ کام کرکے پانی تلاش کر پاؤگے تو خسرو اپنی بیگم شیریں سے تمہاری شادی کردیں گے۔ فرہاد نے پہاڑ کو کاٹ کر پانی تلاش کرلیا تو اس کو یہ غلط خبر دی گئی کہ شیریں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ اس خبر کو سن کر فرہاد مرگیا اور شیریں پھر ساری زندگی روتی رہی۔ فردوسی کی یہ کہانی ہمیشہ محبت کرنے والوں کی محبوب کہانی رہی ہے۔

1596 میں یورپ کے تاریخ دانوں کی نگاہ میں اس کتبہ کی اہمیت لانے والے ایک انگریز رابرٹ شرنی (جو اسٹریا کی حکومت کے سفیر تھے) ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک بہت سارے ماہرین کے وفد اس کتبہ کو دیکھ کر اس کی تصویروں کے ذریعہ ان تینوں زبانوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔

وادی سندھ کی تہذیب کی زبان کو سمجھنے کے لئے اسی طرح کے کتبہ کی تلاش ہے جو کئی زبانوں میں ہوتا ہے تاکہ کسی ایک زبان کو سمجھ کر ہم ان لوگوں کی زبان کو سمجھ پائیں۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ ہڑپا کے لوگوں کی زبان پرانی ڈراویڈین ہے لیکن جب تک ہم اس کو پڑھ نہ پائیں اس وقت تک یہ قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ تاریخ داں اور کھدائی کے زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ ہڑپا کا اسکرپٹ ساری دراوڑ زبانوں کی ماں ہے لیکن جب تک ہم اس کو پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوتے اس وقت تک اصل کہانی پردے راز میں ہی رہے گی۔

جنیٹکس، کھدائی اور زبانوں کے ارتقا کو سمجھنے والے ماہرین اپنے الگ الگ طریقوں کو استعمال کرکے ہڑپا تہذیب اور ان لوگوں کی زبان کے سلسلہ میں ایک ہی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ اس کا ذکر اگلی قسط میں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */