کیا چندرشیکھر آزاد پر حملہ مغربی اتر پردیش کی سیاست کو نئی سمت عطا کرے گا

4 میں سے 3 حملہ آور سہارنپور ضلع کے رنکھنڈی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور چھوٹے موٹے بدمعاش ہیں، ان میں ایک دو کے خلاف مجرمانہ مقدمہ بھی درج ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آس محمد کیف</p></div>

تصویر بشکریہ آس محمد کیف

user

آس محمد کیف

بھیم آرمی چیف اور آزاد سماج پارٹی کے قومی صدر چندرشیکھر آزاد کے حملہ آوروں کی گرفتاری کے بعد ایک بات پوری طرح صاف ہو گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ حملہ چندرشیکھر کے قتل کرنے کے مقصد سے ہی کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ حملہ آوروں کو چندرشیکھر آزاد سے حد درجہ کی نفرت تھی اور وہ ان کی بیان بازی سے سخت ناراض تھے۔

4 میں سے 3 حملہ آور سہارنپور ضلع کے رنکھنڈی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور چھوٹے موٹے بدمعاش ہیں۔ ان میں ایک دو کے خلاف مجرمانہ مقدمہ بھی درج ہے۔ سہارنپور ضلع کا رنکھنڈی گاؤں دیوبند تھانہ کوتوالی علاقہ کا بہت رسوخ دار گاؤں تصور کیا جاتا ہے۔ اس گاؤں میں کئی بار لیڈروں کی مخالفت ہوتی رہی ہے۔ اراکین اسمبلی اور وزراء بے عزت ہوتے رہے ہیں۔ یہ 20 ہزار سے زیادہ آبادی والا ایک ٹھاکر اکثریتی گاؤں ہے۔ جہاں پنڈیر راجپوت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ 90 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ گاؤں میں مہارانا پرتاپ کا بڑا سا اسٹیچو لگایا ہوا ہے۔ اس گاؤں کے دبدبے کا عالم یہ ہے کہ مقامی بسوں میں اس گاؤں کے نوجوانوں سے کرایہ تک نہیں وصولا جاتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>گرفتار ملزمین</p></div>

گرفتار ملزمین

تصویر بشکریہ آس محمد کیف


28 جون کو دیوبند میں اپنے ایک کارکن کے گھر پہنچے چندرشیکھر آزاد پر حملہ کرنے والے 4 نوجوانوں میں سے 3 نوجوان اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ گاؤں کی دوری دیوبند سے 8 کلومیٹر ہے۔ دیوبند شہر میں ہی پہلے چندرشیکھر آزاد کی ریکی کی گئی۔ اس کے بعد ان کی گاڑی کے اپنے قریب لا کر بے حد پیشہ ور طریقے سے ان پر گولی چلائی گئی۔ گولی چندرشیکھر کو چھو کر نکل گئی، جس کے بعد بھاری ہلچل ہو گئی اور سیاسی وبال کھڑا ہو گیا۔ سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے تمام سرکردہ لیڈران اور اراکین اسمبلی ان کی عیادت کے لیے پہنچے اور مزاج پرسی کی۔

2 جولائی اتوار کو سہارنپور کے ڈی آئی جی اجئے ساہنی، ایس ایس پی ویپن تاڈا نے چندرشیکھر آزاد پر حملے کے پورا منصوبہ کا انکشاف کیا۔ اجئے ساہنی نے بتایا کہ وکاس وکرم سنگھ، پرشانت، لاوِش اور وکاس وکی نے اس حملے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سبھی چندرشیکھر آزاد کی تقریروں سے ناراض تھے اور اس کے لیے اسے سبق سکھانا چاہتے تھے۔ چندرشیکھر آزاد اور بھیم آرمی کے کارکنان اس انکشاف سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور یہی ہو سکتے ہیں لیکن حملہ کی وہج ایک بڑی سازش لگتی ہے، جس کا انکشاف نہیں ہوا ہے۔ آخر وہ کون ہے جو چندرشیکھر کی آواز خاموش کرانا چاہتے ہیں! انھیں گولی لگی ہے اور جس طرح سے یہ حملہ کیا گیا وہ صرف ان کے قتل کرنے کے لیے تھا۔ حملوں کے پیچھے کون ہے، ان کو دبوچنا ضروری ہے۔


بھیم آرمی کے قومی جنرل سکریٹری کمل سنگھ والیہ کہتے ہیں کہ پولیس کے تحقیقات سے ہم مطمئن نہیں ہیں، لیکن کچھ تصویر انھوں نے صاف ضرور کی ہے۔ حملے کے بعد سے ہم جانتے تھے کہ وہ کون لوگ ہو سکتے ہیں! ہم جانتے ہیں کہ بہوجن سماج کے نوجوانوں کا بڑھتا ہوا اعتماد کس طرح کے لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ بھیم آرمی کے مضبوط ہونے کے بعد ہمیں جو مقبولیت ملی ہے اس سے جلنے والے یہی لوگ ہے جنھوں نے آج چندرشیکھر بھائی پر حملہ کیا ہے! اس حملے کے پیچھے ایک سازش ہے، پولیس کا یہ کہنا کہ حملہ اچانک ہوا، لیکن یہ ایک کہانی نظر آتی ہے! چندرشیکھر آزاد بھائی دبنگوں کی آنکھ میں چبھ رہے ہیں۔ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ ان پر پانچواں حملہ ہے، وہ سیکورٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سیکورٹی نہیں دی جا رہی ہے۔ ہم آئین کا احترام کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارا سماج بہت غصے میں ہے۔ چندرشیکھر بھائی کے ذریعہ کی گئی امن کی اپیل کے سبب وہ خاموش ہیں۔ ہم انتظامیہ سے غیر جانبدارانہ جانچ کی اپیل کرتے ہیں۔

ایک طرف جہاں اس واقعہ کو لے کر خصوصاً دلت سماج میں ناراضگی ہے، وہیں چندرشیکھر کو ملی سیاسی حمایت نے مغربی اتر پردیش میں سیاست کے ایک رنگ کو ہوا دی ہے۔ مغربی اتر پردیش میں اپوزیشن کے تقریباً تمام لیڈران نے چندرشیکھر آزاد کے ساتھ ہوئے اس حادثہ کی مذمت کی بلکہ وہ مزاج پرسی کرنے چندرشیکھر کے پاس اسپتال بھی پہنچ گئے۔ ایسے کرنے والے لیڈروں میں درجنوں تو اراکین اسمبلی تھے اور تقریباً اتنے ہی سابق اراکین اسمبلی تھے۔ ان میں سماجوادی پارٹی کے اور آر ایل ڈی اتحاد کے سبھی اراکین اسمبلی وہاں پہنچے۔ چندرشیکھر جتنے وقت اسپتال میں داخل رہے اتنے وقت ہی ہزاروں کی تعداد میں عام لوگ اور عوامی نمائندوں کا وہاں ریلا بنا رہا۔ ریاست و بیرون ریاست کے تمام بڑے لیڈران نے اس کی مذمت کی۔ سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اعظم خان نے چندرشیکھر آزاد کے گھر پہنچ کر نہ صرف ان کی سیکورٹی کا مطالبہ اٹھایا بلکہ بے حد جذباتی طریقے سے چندرشیکھر کو گلے لگا کر ایک بہت بڑا پیغام بھی دے دیا۔


سہارنپور کے سیاسی معاملوں کے ماہر ریاض رانا اسے بہت اہم سیاسی واقعہ مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سہارنپور میں حال ہی میں سمراٹ مہربھوج گورو یاترا کو لے کر گوجر اور راجپوت سماج میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے پہلے شبیرپور واقعہ کے بعد سے ہی دلتوں اور راجپوتوں کے درمیان کی برف ابھی نہیں پگھلی ہے۔ اب اس نئے حادثہ سے مغربی اتر پردیش کی سیاست پر یقینی طور پر فرق پڑے گا۔ آر ایل ڈی چیف جینت چودھری سے چندرشیکھر کی نزدیکی اور گوجروں کی راجپوتوں سے ناراضگی ایک نئے طرح کے سیاسی رنگ کو جنم دے رہی ہے۔ یہ واقعہ مغربی اتر پردیش کی سیاست کو ایک نئی سمت عطا کرنے جا رہا ہے۔ چندرشیکھر نے خود اس کا اشارہ دیا ہے۔ اعظم خان کے پہنچنے پر انھوں نے کہا کہ اگر حملہ آور جاٹ، گوجر یا مسلم طبقہ سے ہوتے تو کیا حکومت کا یہی رویہ ہوتا! چندرشیکھر کا یہی سوال نئے سیاسی حالات کا انکشاف کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔