یوپی انتخاب: پوروانچل کی ترقی بھی جملہ، پروجیکٹس کے لیے ملے صرف 1000 روپے

پوروانچل سے ہی وزیر اعلیٰ یوگی سے لے کر پی ایم مودی تک انتخاب لڑتے ہیں، اسی علاقے کے ریلوے زون شمال مشرقی ریلوے کی مجوزہ سنٹرلائزڈ ٹرانسپورٹ کنٹرول سسٹم کے لیے بھی محض 1100 روپے ہی ملے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

کے. سنتوش

برسراقتدار پارٹی جن پروجیکٹس کو شمار کرا کر ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے لیے بجٹ میں جو رقم محفوظ کی گئی ہے، اتنے میں رسوئی گیس کا سلنڈر ملنا بھی مشکل ہے۔ پوروانچل میں ووٹروں کو خوش کرنے والے چار بڑے منصوبوں کے لیے وزیر مالیات نے بجٹ میں صرف ایک ایک ہزار روپے کا انتظام کیا ہے۔ یہ منصوبے انتخابی پٹری پر سالوں سے دوڑ رہے ہیں۔ یہ کب حقیقت میں زمین پر اتریں گے، یہ تو اللہ ہی جانے۔

مہاراج گنج میں گئورکشا پیٹھ کی چھاؤنی ہے۔ مہاراج گنج سے ہی رکن پارلیمنٹ پنکج چودھری ابھی مرکزی وزیر مملکت برائے مالیات ہیں۔ یکم فروری کو وہ ٹیلی ویژن پر وزیر مالیات کے ساتھ نظر آئے تو امید بندھی کہ ڈیڑھ دہائی سے انتخابی ایشو بن رہے آنند نگر-گھگھلی ریل لائن کے لیے خزانہ کھلے گا۔ لیکن شمال مشرقی ریلوے کے افسروں نے پِنک بُک میں بجٹ کی ڈیٹیل نکالی تو پتہ چلا کہ پروجیکٹ کے لیے 1000 روپے کی ٹوکن رقم ہی محفوظ کی گئی ہے۔ یوپی سے بہار کو جوڑنے والی 50 کلومیٹر طویل اس ریل لائن کو 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے منظوری ملی تھی۔ 2019 میں پنکج کی جیت کے پیچھے اس پروجیکٹ کی منظوری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔ اس مسئلہ پر پنکج نے اب خاموشی اختیار کر لی ہے۔


مذہبی مقامات کے ڈیولپمنٹ کو لے کر بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ بھگوان بدھ کی ’پرینروان‘ کی جگہ کشی نگر کو ریل لائن سے گورکھپور تک جوڑنے کا ایشو پچھلی دو دہائی سے اٹھ رہا ہے۔ 2017 میں یوپی اسمبلی انتخاب سے ٹھیک پہلے اس پروجیکٹ کو منظوری دے دی گئی۔ 1476 کروڑ کے اس پروجیکٹ کے لیے ریاستی حکومت کو بھی 50 فیصد حصہ دینا ہے۔ اراضی حصول کے لیے سروے کو لے کر ایک کروڑ روپے کا بجٹ التزام ہوا۔ لیکن سب کچھ ٹھنڈے بستے میں ہے۔ اس بار بجٹ میں اس ریل کے لیے بھی صرف ایک ہزار روپے کی ٹوکن رقم محفوظ کی گئی ہے۔

اسی طرح نیپال بارڈر تک جانے والی بستی-جھانسی-کپل وستو ریل لائن کو مالی سال 15-2014 میں ہی منظوری مل گئی۔ 91 کلو میٹر طویل پروجیکٹ پر 643 کروڑ روپے خرچ ہونے ہیں۔ لیکن بجٹ میں اس کے لیے صرف ایک روپے کی ٹوکن رقم رکھی گئی ہے۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال 2009 سے سدھارتھ نگر کے ووٹروں کو 91 کلومیٹر طویل اس ریل لائن کو لے کر خواب دکھا کر انتخاب جیت رہے ہیں۔


اسی طرح ایٹہ سے کاسگنج تک 29 کلومیٹر طویل ریل لائن کے لیے بھی بجٹ میں ہزار روپے محفوظ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں بہرائچ-نانپارہ-نیپال گنج تک 56 کلومیٹر طویل ریل دوہری کاری کے لیے بھی صرف ہزار روپے ملے ہیں۔ پوروانچل سے ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر وزیر اعظم نریندر مودی تک انتخاب لڑتے ہیں۔ اسی علاقے کے ریلوے زون شمال مشرقی ریلوے کی مجوزہ سنٹرلائزڈ ٹرانسپورٹ کنٹرول سسٹم کے لیے بھی محض 1100 روپے ہی ملے ہیں۔

سہجنوا-دوہری گھاٹ ریل لائن بچھانے کے لیے 1320.75 کروڑ روپے کی رقم خرچ ہونی ہے۔ اس کے لیے 535 ہیکٹیر زمین کا انتظام ہونا ہے۔ اس کے لیے دسمبر میں صرف 20 کروڑ روپے کا بجٹ جاری ہوا ہے۔ اسی پروجیکٹ کو بانس گاؤں کے ووٹروں کو بتا کر بی جے پی رکن پارلیمنٹ کملیش پاسوان جیت کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی سے سابق رکن پارلیمنٹ اکھلیش سنگھ کہتے ہیں کہ ’’ڈبل انجن کی حکومت میں پوروانچل کے پروجیکٹس کے لیے صرف 1000-1000 روپے کی ٹوکن رقم ووٹروں کی امید کے ساتھ مذاق ہے۔ سال در سال صرف 1000-1000 روپے کی انتخابی رقم حکومت کی منشا پر سوال ہے۔‘‘


انتخابی پروجیکٹس کو حکومت انتخابات میں کس طرح استعمال کرتی ہے، اس کی تازہ مثال خلیل آباد-بہرائ ریل لائن ہے۔ 4940 کروڑ میں مجوزہ 240 کلومیٹر طویل ریل لائن کے زمین حصول کے لیے ریلوے نے فروری کے پہلے ہفتہ میں نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ اب سنت کبیر نگر، سدھارتھ نگر، بلرام پور، سراوستی سے لے کر بہرائچ ضلعوں کی اسمبلی سیٹوں پر پروجیکٹ کے نام پر بی جے پی امیدوار ووٹ مانگ رہے ہیں۔ سدھارتھ نگر میں پرائیویٹ فارمیسی کالج میں استاذ اَرپیتا سریواستو کہتی ہیں کہ ’’ریل لائن اور فورلین کو لے کر باتیں لیڈروں کی تقریر میں سننے کو ملتی ہیں یا پھر بجٹ کے بعد اخبارات میں امید جگانے کی خبریں دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن حقیقت کی زمین پر پوروانچل کے منصوبے کب دوڑیں گے، اس کا جواب لیڈر نہیں دیتے ہیں۔‘‘

میٹرو کا بھی یہی حال

یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد پہلی بار گورکھپور آئے تھے، تبھی انھوں نے میٹرو کو لے کر اعلان کیا تھا۔ پانچ سال میں ترقی کے نام پر ڈی پی آر کی منظوری ہوئی۔ اسی طرح وزیر اعظم مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں بھی لائٹ میٹرو چلانے کا منصوبہ ہے۔ گورکھپور میٹرو کو یوپی کابینہ سے منظوری مل گئی ہے لیکن وارانسی میٹرو کو لے کر خاص ترقی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں شہروں میں میٹرو کے لیے یوپی بجٹ میں 100 کروڑ کا انتظام تو ہوا ہے لیکن انتخاب میں اسے لے کر یوگی بھی کچھ نہیں بول رہے ہیں۔ گورکھپور میٹرو پر 4600 کروڑ سے زیادہ خرچ ہونے ہیں۔ وہیں وزیر اعظم مودی کا دعویٰ ہے کہ 2024 سے پہلے کاشی میں میٹرو کا چلنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن زمین پر کوئی کام ہوتا تو دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔