پیگاسس: پکڑو تو کاٹے، چھوڑو تو بھاگے!... اعظم شہاب

پیگاسس جاسوسی معاملے سے انکار کرکے مودی حکومت خود سیلف گول کر رہی ہے اور یہ اسی سیلف گول کا اثر ہے کہ پارلیمانی اجلاس سے قبل ہی اس پر لرزہ طاری ہو رہا ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

اب اسے بھلا بی جے پی کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ ابھی ریلوے بھرتی معاملے میں نوجوانوں کے احتجاج سے اس کے پسینے بھی خشک نہیں ہوسکے تھے کہ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس سر پر آپہنچا۔ ابھی وہ بجٹ اجلاس میں حزبِ مخالف کو زیر کرنے کی حکمت عملی ہی تیار کر رہی تھی کہ سُسری پیگاسس کی بلّی ایک بار پھر تھیلی سے باہر آگئی۔ یہ وہی بلی ہے جس نے گزشتہ پارلیمانی اجلاس میں مودی حکومت کو اس قدر دہشت زدہ کر رکھا تھا کہ وہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ’ہاں‘ یا ’نا‘ والے سوالوں کے جواب تک نہیں دے سکی تھی۔ راہل گاندھی بار بار پوچھتے رہے کہ حکومت نے پیگاسس خریدا یا نہیں، لیکن حکومت نے خاموشی کا برت رکھ لیا تھا۔ البتہ وزارت داخلہ کے ایک نمائندے کے ذریعے یہ ضرور کہلوایا گیا کہ حکومت نے پیگاسس کا سودا نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی کی جاسوسی کروائی ہے۔ لیکن اس سے قبل دی وائر سمیت 16؍میڈیا ہاؤس کی تحقیقاتی رپورٹ نے پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کو بے نقاب کر دیا تھا۔ راہل گاندھی کا سوال اس وقت بھی تشنۂ جواب رہا اور اب اس کی تشنگی مزید بڑھ گئی ہے، جب نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ مودی حکومت نے پیگاسس کا نہ صرف سودا کیا بلکہ اس کے ذریعے اپنے لوگوں کی جاسوسی بھی کروائی۔

پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کا معاملہ یوں تو 2016 میں متحدہ عرب امارات میں سامنے آیا تھا، لیکن ہمارے یہاں یہ موضوع بحث بنا 2021 میں جب 16 میڈیا ہاؤسس نے اپنی ایک مشترکہ تفتیشی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او کے بنائے ہوئے اس اسپائی ویئر کا استعمال 2019 کے پارلیمانی انتخاب سے قبل اور 2018 و 2019 کے درمیان بھرپور طریقے سے ہوا، جس کے ذریعے 300 سے زیادہ ہندوستانی نمبروں کی جاسوسی کی گئی۔ اتفاق کی بات ہے ان 16؍میڈیا ہاؤسس کی رپورٹ جب آئی تھی تو اس وقت پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کی تیاری ہو رہی تھی اور دو روز قبل نیویارک ٹائمز کی جو رپورٹ آئی ہے، اس وقت پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کی تیاری چل رہی ہے۔ قوی امید ہے کہ جس طرح جولائی 2021 کے مانسون اجلاس میں حکومت خاموش تھی اسی طرح اس بجٹ اجلاس میں بھی خاموش ہی رہے گی، لیکن حکومت کی اس بار کی خاموشی یقینی طور پر اس بات کی توثیق ہوگی کہ حکومت نے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا ہے۔ مراٹھی میں ایک کہاوت ہے ’سوڑلا تے دھاوتے، دھرلا تے چاؤتے‘ یعنی اگر چھوڑا جائے تو بھاگتا ہے اور پکڑا جائے تو کاٹتا ہے۔ مودی حکومت اگر پیگاسس کی خریداری اور اس کے استعمال سے انکار کرتی ہے تو وہ مزید سوالات کے گھیرے میں آجائے گی اور ثبوت وشواہد اس کی بخیہ اھیڑ دیں گے، اور اگر اسے تسلیم کرتی ہے تو اس کے بہت سے اپنے بھی اس سے دور ہو جائیں گے کیونکہ اس صورت میں اس پر پارلیمنٹ سے لے کر عوام تک اور اپوزیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک سب کے ساتھ جھوٹ بولنے کا الزام سچ ثابت ہوجائے گا۔


پارلیمنٹ میں اپنی خوفناک اکثریت کے زعم میں بھلے ہی پردھان سیوک اپوزیشن کو خاطر میں نہ لاتے ہوں، لیکن ان کی خوفزدگی نے گزشتہ کی تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ جو لوگ رات دن یہ سوشل میڈیا پر یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ اپوزیشن ختم ہوچکا ہے یا اپوزیشن کہاں ہے؟ انہیں ذرا پارلیمنٹ میں مودی حکومت کی لاچاری پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے کہ پوری کابینہ مل کر بھی اپوزیشن کے ایک واحد شخص راہل گاندھی کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی ہے۔ پارلیمنٹ تو دور، اگر راہل گاندھی کوئی ٹوئٹ بھی کردیں تو پتہ چلتا ہے کہ پوری بی جے پی اوپر سے نیچے تک لرزہ براندام ہوگئی ہے۔ پھر آئی ٹی سیل سے لے کر بی جے پی لیڈران تک ہر کوئی سرگرم ہو جاتا ہے کہ راہل گاندھی کو نیچا دکھایا جائے، مگر پھر بھی راہل گاندھی کے اٹھائے ہوئے سوالات کی اہمیت ذرہ برابر کم نہیں ہوتی۔ شاید یہی خوفزدگی ہے کہ گھس کر مارنے والے ہمارے پردھان سیوک بھی اس بات کا اعتراف نہیں کرسکے کہ انہوں نے پیگاسس کا سودا کیا تھا اور اس کے لئے ملک کے عوام کی گاڑھی کمائی صرف کی تھی۔

پیگاسس کے معاملے میں گزشتہ پارلیمانی اجلاس کے دوران ہی حکومت کی دیوار میں شگاف پڑجاتا لیکن وہ تو اچھا ہوا کہ اجلاس کی مدت ختم ہوگئی۔ حکومت نے چین کا سانس لیا تھا، جان بچی سُو لاکھوں پائے۔ لیکن اپوزیشن نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جا پٹکا۔ پارلیمنٹ میں خاموشی کا ورت رکھنے والی حکومت نے سمجھا خطرہ ٹل گیا مگر سپریم کورٹ نے اس کی تفتیش کے لئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی۔ چارو ناچار حکومت کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنا پڑا، جس میں اس نے ایک بار پھر وہی پرانا راگ الاپا کہ حکومت نے پیگاسس نہیں خریدا ہے اور نہ ہی کسی کی جاسوسی کی ہے۔ لیکن جن لوگوں کی جاسوسی کی گئی تھی ان میں دیگر لوگوں کے ساتھ کچھ جج حضرات کے بھی نام سامنے آئے تھے جو شخصی آزادی کی آئینی حیثیت کی خلاف ورزی کے ساتھ ہی عدلیہ پر بھی شب خون مارنا جیسا تھا۔ اس کی جسارت وہی کرسکتا ہے جو یا تو حد درجہ بے خوف یا بے انتہا مجبور ہو۔ اس ضمن میں رافیل کا فیصلہ بھی زیربحث آیا جس کی سماعت کرنے والے جج صاحب کا نام بھی جاسوسی کئے جانے والوں کی فہرست میں شامل تھا۔


پیگاسس معاملے میں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرکے اپنے ہی لوگوں کی جاسوسی کروا کر بی جے پی کو آخر ملا کیا؟ جب اس نے اپنے مرکزی کابینہ کے ہی وزراء تک کی جاسوسی کروا ڈالی تو پھر وہ لوگ بھلا کیسے بچے ہوں گے جو اترپردیش میں بی جے پی کی نیا پار لگا سکتے تھے؟ ظاہر ہے کہ اس ضمن میں سب سے بڑا نام سوامی پرساد موریا کا ہے اور ان کی بھی جاسوسی کرائے جانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پیگاسس کی اس جاسوسی سے وہ سوامی پرساد موریا کے ارداے تک نہیں بھانپ سکی اور ان کے ساتھ دو وزراء اور گیارہ ممبرانِ اسمبلی کو نہیں روک سکی تو آخر اسے اس کا فائدہ کیا ہوا؟ اس کا واضح جواب یہی ہوسکتا ہے کہ مانسون اجلاس کے ہنگامے کے بعد بی جے پی کی ہمت جواب دے گئی کہ وہ اس اسپائی ویئر کا مزید استعمال کرے۔ وگرنہ ہر ریاست میں دیگر پارٹیوں کے لیڈران کا عین چناؤ کے وقت بی جے پی میں شامل ہونا تو ایک فیشن بن چکا تھا اور یہ فیشن ظاہر ہے کہ پیگاسس کے ذریعے ہی معرضِ وجود میں آرہا تھا۔

نیویارک ٹائمز کی تارزہ رپورٹ کے بعد اب مودی حکومت کو منھ چھپاتے نہیں بن پڑ رہی ہے۔ راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’مودی حکومت جمہوریت کے بنیادی اداروں، سیاسی لیڈروں اور عام لوگوں کی جاسوسی کرانے کے لئے پیگاسس خریدا تھا، فوٹ ٹیپ کرکے حزبِ اقتدار، اپوزیشن، فوج وعدلیہ تک سب کو نشانہ بنایا ہے، جو دیش دروہ ہے۔ مودی حکومت نے دیش دروہ کیا ہے‘۔ راہل گاندھی کے اس ٹوئٹ کا جواب کچھ یوں دیا جا رہا ہے کہ پیگاسس معاملے پر کانگریس سیلف گول کر رہی ہے۔ لیکن یہ جواب دینے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ معاملہ صرف کانگریس کا نہیں ہے، دیگر پارٹیوں کا بھی ہے اور خود حزبِ اقتدار کے بھی لیڈروں کا ہے۔ فوج کے اعلیٰ افسران کا بھی ہے اور عدالتوں کے جج صاحبان کا بھی ہے۔ اس کے خلاف دہلی سے لے کر لکھنؤ، کولکاتا ومہاراشٹر تک ہر جگہ آواز اٹھ رہی ہے۔ کیا سبھی لوگ سیلف گول کر رہے ہیں؟ سچائی یہ ہے کہ پیگاسس جاسوسی معاملے سے انکار کرکے مودی حکومت خود سیلف گول کر رہی ہے اور یہ اسی سیلف گول کا اثر ہے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس سے قبل ہی اس پر لرزہ طاری ہو رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔