’’بھر دے جھولی مری یا مظفر نگر‘‘... سہیل انجم

بی جے پی ہمیشہ ہندو مسلم کے ایشو پر الیکشن جیتتی آئی ہے۔ اس کے پاس اور کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ وہ صرف مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹنے میں لگی رہتی ہے۔

مظفرنگر میں امت شاہ / تصویر ٹوئٹر
مظفرنگر میں امت شاہ / تصویر ٹوئٹر
user

سہیل انجم

اس وقت اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں عوام سے رابطہ قائم کر رہی ہیں۔ لیکن بی جے پی کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ اس بار بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔ اسی لیے اسے آسان بنانے کے لیے اترپردیش کے وزرا اور لیڈر تو دورے کر ہی رہے ہیں مرکزی حکومت کے وزرا اور دوسری ریاستوں کہ بی جے پی لیڈر بھی یو پی کے مختلف علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور عوام سے الگ الگ قسم کے وعدے کر رہے ہیں۔ بی جے پی ہمیشہ ہندو مسلم کے ایشو پر الیکشن جیتتی آئی ہے۔ اس کے پاس اور کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ وہ صرف مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹنے میں لگی رہتی ہے۔ حالانکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ترقی کے ایجنڈے پر ووٹ مانگتی ہے۔ لیکن اس بار بی جے پی کے لوگ جہاں بھی ہندو مسلم کی بات کرتے ہیں عوام ناراض ہو جاتے ہیں۔

چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی ریلیوں اور جلسوں جلوسوں پر پابندی عاید ہے اس لیے گھر گھر جا کر ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور بی جے پی لیڈر امت شاہ بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ انھوں نے مغربی یوپی کے کیرانہ سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ کیرانہ میں انھوں نے ہندووں کے مبینہ پلائن یا ترک وطن کا ایشو اٹھایا اور کہا کہ بی جے پی کے راج میں کسی بھی ہندو کو پلائن نہیں کرنے دیا جائے گا۔ حالانکہ بی جے پی کے ہی کئی لیڈر اور کیرانہ کے عوام بھی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ پلائن کوئی ایشو نہیں ہے۔ لیکن امت شاہ اسے ایشو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


انھوں نے کیرانہ کے بعد مظفر نگر کا دورہ کیا اور وہاں بھی گھر گھر جا کر ووٹ مانگے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا مظفر نگر کے لوگوں سے ساڑھے چھ سو سال کا پرانا ناطہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ 2014 میں آئے تھے اور پھر 2017 میں بھی آئے تھے۔ ان کے بقول جب بھی میں یہاں آیا آپ لوگوں نے میری جھولی بھر دی۔ یہاں سے بی جے پی کی کامیابی کا آغاز ہوتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی کی حکومت نہیں آئی تو انھوں نے کئی مسلمانوں کے نام لے کر کہا کہ ان کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ گویا انھوں نے وہاں کے ہندووں کو مسلمانوں کا خوف دکھانے کی کوشش کی اور انھیں یہ بتانا چاہا کہ اگر انھوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر حکومت میں نہیں پہنچایا تو ان کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔

خیال رہے کہ مظفر نگر میں 2013 میں بھیانک فساد ہوا تھا جس میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 48 مسلمان ہی تھے۔ بی جے پی نے اس فساد کو ووٹ بینک میں بدل دیا تھا۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں مغربی یو پی میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی تھی۔ اس کے بعد 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی اسے خاصی کامیابی ملی تھی۔ اس وقت بی جے پی نے مغربی یوپی کی 108 سیٹوں میں سے 83 پر قبضہ کر لیا تھا۔ امت شاہ ایک بار پھر اسی نتیجے کو دوہرانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے مظفر نگر کے ہندووں کے دلوں میں مسلمانوں کا ڈر بٹھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ کیا کوئی 2013 کے فساد کو بھول سکتا ہے۔


جی نہیں، امت شاہ جی کوئی نہیں بھول سکتا۔ خاص کر مسلمان تو بالکل نہیں بھول سکتے۔ لیکن ذرا یہ تو بتائیے کہ آپ جو اہل مظفر نگر سے جھولی بھرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مظفر نگر فساد میں بی جے پی کا کیا رول تھا۔ مغربی یوپی اور خاص طور پر مظفر نگر کے ہندو جاٹ بھی اس فساد کو نہیں بھولے ہیں۔ انھوں نے کسان تحریک کے دوران اپنی مہاپنچایتوں میں مسلمانوں کو بھی اپنے اسٹیج پر بٹھایا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی۔ انھوں نے بی جے پی کے ورغلانے میں آکر مسلمانوں کے خلاف دنگا کیا اور پھر بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن اب وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔

امت شاہ ہوں یا یوگی آدتیہ ناتھ سبھی اس صورت حال سے خوف زدہ ہیں اور اسی لیے وہ ایک بار پھر ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پھر ہندووں کو بہکا کر ان کے ووٹ چھینے جا سکیں۔ لیکن وہاں کے ہندو اب اس بہکاوے میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امت شاہ کے دورے کے بعد مظفر نگر کے جاٹوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب یہاں بی جے پی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار بھی ہماری جھولی بھر دو۔ لیکن اس وقت وہ کہاں تھے جب کسان دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تو کسانوں کو دہشت گرد اور خالصتانی کہا جا رہا تھا۔ اب وہ انہی کسانوں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انہی کسانوں کے ووٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جن کو روکنے کے لیے دہلی کی سڑکوں پر کیلیں گاڑی گئیں۔ خاردار تاروں کی دیواریں بنائی گئیں اور کسان دہلی میں داخل نہ ہو سکیں اس کے لیے کیا کیا نہیں کیا گیا۔


مقامی کسانوں کے مطابق آج امت شاہ ان کے سامنے اپنی جھولی پھیلا رہے ہیں۔ ان کو ہمارے سامنے جھولی پھیلاتے ہولے شرم نہیں آتی۔ وہ کس منہ سے ہم سے ووٹ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اب یہاں کے لوگ بی جے پی کے ورغلانے میں نہیں آئیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امت شاہ ایک بار نہیں سو بار اپنی جھولی پھیلائیں اس میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈلے گا اور ان کی جھولی خالی کی خالی ہی رہے گی۔

مظفر نگر کے بعد وہ دیوبند گئے۔ دیوبند دار العلوم کی وجہ سے عالمی شہرت کا حامل ہے۔ دار العلوم دیوبند کو ہندوستان کا جامعہ ازہر کہا جاتا ہے۔ دیوبند ایک مذہبی شہر ہے۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں برسوں گزر گئے کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ لیکن بی جے پی اسے بھی فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یوپی کی یوگی حکومت وہاں انسداد دہشت گردی اسکواڈ بنا رہی ہے۔ یعنی دہشت گردی مخالف مرکز قائم کر رہی ہے۔ تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ دیوبند دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔ حالانکہ دیوبند کے ماحول میں جب ہندو مسلم منافرت نہیں ہے اور وہاں کبھی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا تو پھر اینٹی ٹیرارسٹ اسکواڈ قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک تو دیوبند کو پوری دنیا میں بدنام کیا جائے اور دوسرے وہاں بھی مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جائے۔


دیوبند ہینڈلوم اور گنڈاسے کی وجہ سے بھی مشہور رہا ہے۔ ہینڈ لوم تو ختم ہو گئے اور جی ایس ٹی اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے گنڈاسے کا کاروبار بھی ختم ہو رہا ہے۔ لیکن نہ تو مرکز کو اس کی فکر ہے اور نہ ہی یوپی حکومت کو۔ ان کو فکر ہے تو مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی۔ آخر امت شاہ کو دیوبند جانے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ وہ تو شکر ہے کہ وہاں تنگ و تاریک گلیوں میں زیادہ بھیڑ ہو گئی جس کی وجہ سے ان کو جلد ہی وہاں سے واپس ہو جانا پڑا۔ ورنہ ان کو بولنے کا زیادہ موقع ملتا تو وہ پتہ نہیں کیا کیا کہتے۔ دیوبند کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں ہمیشہ ہندو مسلم بھائی چارہ رہا ہے۔ وہ ایک سیکولر شہر ہے۔ وہ کانگریس کا گڑھ رہا ہے۔ سیکورلزم اس کی شناخت ہے۔ لیکن بی جے پی اس شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کو شائد معلوم نہیں کہ دیوبند کے عوام اس شناخت کی پوری قوت کے ساتھ حفاظت کر رہے ہیں اور بی جے پی کے سیاست داں اس کو مٹانے میں ذرا بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔