’ہمیں وَندنا نہیں، برابری چاہیے‘، خاتون ریزرویشن بل پر کنی موژی نے حکومت کو لگائی پھٹکار

خاتون ریزرویشن بل پر بحث کے دوران کنی موژی نے بی جے پی اور مودی حکومت کو خوب کھری کھوٹی سنائی، انھوں نے کہا کہ بل کو حد بندی اور مردم شماری سے جوڑنا جنوبی ہند کے لیے موضوعِ فکر۔

<div class="paragraphs"><p>کنی موژی، ویڈیو گریب</p></div>

کنی موژی، ویڈیو گریب

user

ایشلن میتھیو

خاتون ریزرویشن بل پر لوک سبھا میں آج بحث کا عمل انجام پایا۔ یہ بل لوک سبھا سے پاس بھی ہو گیا ہے اور 21 ستمبر کو بل راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ لوک سبھا میں بل کی منظوری سے قبل ہوئی بحث کے دوران ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ کنی موژی نے اپنی بات رکھتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ آخر بل کو حد بندی سے کیوں جوڑا گیا ہے، کیونکہ اس سے تو جنوبی ہند کو نقصان ہی ہوگا۔

کنی موژی نے کہا کہ جب یو پی اے حکومت بل لے کر آئی تھی تو خواتین کو ریزرویشن دینے کے لیے کوئی شرط نہیں لگائی گئی تھی۔ حد بندی پر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے چیف ایم کے اسٹالن کا حوالہ دیتے ہوئے کنی موژی نے کہا کہ ’’ہندوستان واحد ملک ہے جس نے دہائی والی مردم شماری نہیں کی ہے۔ اگر حد بندی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگی تو یہ جنوبی ہند کی ریاستوں کی نمائندگی کو چھین ہی نہیں لے گا بلکہ ان کی نمائندگی اور کم کر دے گا۔ یہ ہمارے سر پر لٹکتی تلوار کی طرح ہو جائے گا۔‘‘


کنی موژی آگے کہتی ہیں کہ ’’انھوں نے (اسٹالن) نے کہا ہے کہ وہ بل کی حمایت کریں گے، لیکن انھوں نے پوچھا ہے کہ بل کو نافذ کرنے کے لیے اسے حد بندی سے کیوں جوڑا جانا چاہیے؟‘‘ یہ 2024 کے انتخابات کو دھیان میں رکھتے ہوئے بی جے پی کے ذریعہ تیرا کیا گیا ایک عجیب ڈرامہ ہے۔ ہم پسماندہ طبقہ کی خواتین کی نمائندگی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انھوں نے تمل ناڈو اور دیگر جنوبی ہند کی ریاستوں کے لوگوں کے من میں ہماری نمائندگی کم ہونے کو لے کر اندیشہ پر زور دیا ہے۔ خوف ہے کہ ہماری آوازیں کمزور کر دی جائیں گی۔ کنی موژی نے کہا کہ اس بارے میں وضاحت ہونی چاہیے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہماری نمائندگی کہیں بھی کم ہو۔

کنی موژی نے اس بات پر زور دیا کہ بی جے پی یہ کہہ کر اسے نظر انداز نہیں کر سکتی کہ تعداد برابر ہوگی اور دیگر ریاستوں کو زیادہ نمائندگی ملے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ویسی ہی جاری رہے، جیسا یہ ہے۔ کنی موژی نے صاف لفظوں میں یہ بھی کہا کہ ’’جو بحث ہو رہی ہے، اس میں ہم یکساں طور سے اپنی بات رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘


کنی موژی نے کہا کہ ’’خواتین کی نمائندگی کے معاملے میں ہندوستان 193 ممالک میں 141ویں مقام پر ہے۔ ہمارا ملک اس معاملے میں پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ اس بل کو اگلے پارلیمانی انتخاب میں آسانی سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ بل ریزرویشن نہیں ہے، بلکہ تعصب اور ناانصافی کو دور کرنے کا ایک ایکٹ ہے۔ اگر آپ حد بندی کے بعد اسے نافذ کرنے کا التزام نہیں ہٹائیں گے تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ زیادہ طویل انتظار کب تک چلتا رہے گا۔ مردم شماری اور حد بندی 20 یا 30 سال بعد ہو سکتا ہے۔ انتظار جاری رہ سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے پارلیمنٹ کو یاد دلایا کہ یہ بل 27 سالوں سے لٹکا ہوا ہے اور وہ اس ایشو کو کئی بار اٹھا چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’2010 میں جب یو پی اے حکومت کے ذریعہ بل لایا گیا تھا، تو اس میں کوئی شرط نہیں تھی۔ بل پاس ہونے کے فوراً بعد اثرانداز ہو جانا تھا۔ لیکن ابھی جو بل پیش کیا گیا ہے، اس کے سیکشن 5 میں واضح طور سے کہا گیا ہے کہ لوک سبھا میں خواتین کے لیے سیٹوں کا ریزرویشن، ریاستی اسمبلیوں اور دہلی کے قومی راجدھانی علاقہ میں حد بندی کے عمل کے بعد نافذ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترمیم کے قانون بننے کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق حد بندی کی جائے گی۔ درحقیقت 2024 میں آئندہ عام انتخاب یا آنے والے مہینوں میں ہونے والی مختلف ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں خواتین کے لیے سیٹیں ریزرو نہیں ہوں گی۔‘‘

کنی موژی نے حیرانی ظاہر کی کہ خاتون ریزرویشن بل کا مسودہ تیار کرنے اور اسے پیش کرنے کو لے کر اتنی ’رازداری‘ کیوں تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں جاننا چاہوں گی کہ کیا اتفاق رائے قائم ہوا، کیا بحث ہوئی۔‘‘ کنی موژی نے کہا کہ ’’ہمیں نہیں پتہ کہ یہ اجلاس کیوں بلایا گیا ہے۔ کل جماعتی لیڈروں کی میٹنگ میں اس بل کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ لیکن اچانک بل ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ کیا حکومت اسی طرح کام کرے گی؟ کیا سب کچھ حیران کرنے والا ہی ہوگا؟‘‘ جس طرح سے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران ایجنڈے میں اس کا تذکرہ کیے بغیر بل پیش کیا گیا، اس کی مذمت کرتے ہوئے کنی موژی نے اس پر ہوئے صلاح و مشورے اور میٹنگوں کے بارے میں جاننا چاہا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بل کا معاملہ پارلیمنٹ میں کئی بار اٹھایا ہے۔ میرے سبھی نشان زد اور غیر نشان زد سوالوں پر حکومت کا جواب صاف تھا۔ بل لانے سے پہلے انھیں سبھی اسٹیک ہولڈرس اور سیاسی پارٹیوں سے مشورہ کرنا ہوگا اور عام اتفاق بنانا ہوگا۔ یہ ہمارے کمپیوٹرس پر جیک-اِن-دی-باکس کی طرح ابھر آیا۔


پارلیمنٹ کے ملازمین کی نئی وردی کا تذکرہ کرتے ہوئے کنی موژی نے سوال کیا کہ ’’جیسے ہم اچانک سکریٹریٹ ملازمین کی وردی سے کمل کھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، کیا اس طرح سب کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے؟ کیا یہ حکومت ایسے ہی کام کرے گی؟‘‘ ڈی ایم کے لیڈر نے مثبت کارروائی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کی پہلی خاتون رکن اسمبلی ڈاکٹر متھو لکشمی ریڈی کا انتخاب 1927 میں تمل ناڈو اسمبلی میں ہوا تھا۔ لیکن اس کے تقریباً 100 سال بعد بھی ہم نے اب بھی بل پاس نہیں کیا ہے۔ 1929 میں پیریار نے چینگل پٹو میں ’سوابھیمان سمیلن‘ میں تعلیم، روزگار اور سیاست میں خواتین کے لیے ریزرویشن پر زور دیتے ہوئے ایک قرارداد پاس کیا۔

خاتون ریزرویشن بل کی تاریخ بتاتے ہوئے کنی موژی نے کہا کہ یہ بل پہلی بار 1996 میں ڈی ایم کے کی حمایت سے مشترکہ محاذ حکومت کے ذریعہ لایا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایچ ڈی دیوگوڑا اس بل کو پارلیمنٹ میں لے کر آئے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اپنے دور میں اسے پارلیمنٹ میں لائے، لیکن 2010 میں یو پی اے حکومت نے اس بل کو راجیہ سبھا میں پاس کرا دیا۔ بل پاس ہونے میں تاخیر پر تبصرہ کرتے ہوئے کنی موژی نے کہا کہ انھوں نے 13 سال پہلے راجیہ سبھا میں بل کے بارے میں بات کی تھی اور وہ پھر سے بل کے بارے میں بول رہی ہیں اور اس پر اب بھی بحث ہی چل رہی ہے۔


کنی موژی نے بل کے ہندی نام پر بھی سوال اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’برائے کرم دکھاوا بند کریں۔ اس بل کو ’ناری شکتی وندن ایکٹ‘ کہا گیا ہے۔ ہم سلام نہیں چاہتے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں تخت پر بٹھایا جائے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری پوجا کی جائے۔ ہم ماں کہلانا نہیں چاہتے، ہم آپ کی بہنیں یا بیویاں نہیں بننا چاہتے۔ ہم برابر ہونا چاہتے ہیں۔ آئیے ہم تخت سے نیچے اتریں اور برابری کے ساتھ چلیں۔ اس ملک پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کا ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ کنی موژی جب خاتون ریزرویشن بل پر اپنی رائے رکھنے کے لیے کھڑی ہوئیں تو برسراقتدار طبقہ کے کچھ اراکین پارلیمنٹ نے انھیں بولنے سے روکنے کی کوشش کی، جس پر ہنگامہ بھی ہوا۔ لوک سبھا میں پیدا ہنگامے والی اس حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کنی موژی نے کہا کہ ’’جب وہ بی جے پی اراکین کو خواتین کو روکتے ٹوکتے ہوئے دیکھتی اور سنتی ہیں تو انھیں پیریار کی کہی بات یاد آتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ مردوں کا یہ دکھاوا کہ وہ خواتین کا احترام کرتے ہیں اور ان کی آزادی کے لیے کوششیں کرتے ہیں، صرف انھیں دھوکہ دینے کی ایک چال ہے۔‘‘

بہرحال، کنی موژی کے ذریعہ لوک سبھا میں خاتون ریزرویشن بل پر کی گئی تقریر نیچے دیے گئے لنک میں دیکھی اور سنی جا سکتی ہے...

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔