خاتون ریزرویشن بل لوک سبھا سے پاس، آئیے جانتے ہیں کس نے کیا کہا!

خاتون ریزرویشن بل پر 20 ستمبر کو پرچی کے ذریعہ ووٹنگ ہوئی، اس بل کے حق میں 454 ووٹ پڑے، جبکہ اس کے خلاف محض 2 ووٹ ڈالے گئے، اب یہ بل راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

لوک سبھا، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

خاتون ریزرویشن بل کو لوک سبھا سے منظوری مل گئی ہے۔ یہ بل لوک سبھا میں بہ آسانی پاس ہو گیا، حالانکہ کچھ اراکین پارلیمنٹ نے ضروری ترمیم سے متعلق مشورہ ضرور دیا ہے۔ خاتون ریزرویشن بل پر 20 ستمبر کو پرچی کے ذریعہ ووٹنگ ہوئی۔ اس بل کے حق میں 454 ووٹ پڑے، جبکہ اس کے خلاف محض 2 ووٹ ڈالے گئے۔ اب یہ بل راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔

20 ستمبر کو خاتون ریزرویشن بل پر لوک سبھا میں ووٹنگ سے قبل بحث کرائی گئی۔ اس بحث میں تقریباً 60 اراکین پارلیمنٹ نے حصہ لیا اور اکثریت نے اس بل کی حمایت میں اپنی بات رکھی۔ اپوزیشن کی طرف سے سونیا گاندھی، راہل گاندھی، سپریا سولے، ڈمپل یادو، کنی موژی، مہوا موئترا وغیرہ نے اپنی باتیں رکھیں، جبکہ برسراقتدار طبقہ کی طرف سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، ارجن میگھوال، اسمرتی ایرانی وغیرہ نے خاتون ریزرویشن بل کے فائدے بتائے۔ آئیے یہاں جانتے ہیں کس لیڈر نے خاتون ریزرویشن بل پر کیسا رد عمل ظاہر کیا۔


امت شاہ (مرکزی وزیر داخلہ):

سوشل میڈیا پر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس بل کی حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس میں او بی سی، مسلموں کا ریزرویشن نہیں ہے۔ اگر آپ بل کی حمایت نہیں کریں گے تو کیا ریزرویشن جلدی ہوگا؟ اگر آپ اس بل کی حمایت کرتے ہیں تو کم از کم گارنٹی تو دیں گے۔ خاتون ریزرویشن بل احترام کی علامت ہے اور ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ جی-20 کے دوران وزیر اعظم مودی نے خاتون کی قیادت والی ترقی کا ویژن پوری دنیا کے سامنے رکھا۔

ارجن رام میگھوال (وزیر قانون):

حد بندی کو لے کر سوال کھڑا کیا جا رہا ہے۔ حد بندی کے سیکشن 8 اور 9 میں یہ کہا گیا ہے کہ تعداد دے کر ہی تعین ہوتا ہے۔ ان تکنیکی چیزوں میں ہم جائیں گے تو آپ چاہتے ہیں کہ یہ بل پھنس جائے۔ لیکن ہم اس بل کو پھنسنے نہیں دیں گے۔ سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ خاتون ریزرویشن کا موضوع افقی بھی ہے اور عمودی بھی۔ اب فوراً تو حد بندی یا مردم شماری نہیں ہو سکتی، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ فوراً ریزرویشن دے دیجیے۔


سونیا گاندھی (کانگریس):

یہ میری زندگی کا جذباتی لمحہ ہے۔ پہلی بار مقامی بلدیہ میں خواتین کی شراکت داری طے کرنے والی آئین ترمیم میرے شریک حیات راجیو گاندھی ہی لے کر آئے تھے، لیکن یہ سات ووٹوں سے راجیہ سبھا میں گر گیا تھا۔ بعد میں اسے پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس حکومت نے پاس کرایا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مقامی بلدیہ کے ریزلٹ کے ذریعہ 15 لاکھ منتخب خاتون لیڈران ہیں۔ راجیو گاندھی کا خواب ابھی تک نصف ہی پورا ہوا ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے ساتھ ہی وہ پورا ہوگا۔ کانگریس پارٹی اس بل کی حمایت کرتی ہے۔

میرا سوال ہے کہ ہندوستانی خواتین گزشتہ 13 سالوں سے اپنی سیاسی ذمہ داری کا انتظار کر رہی ہیں، لیکن انھیں اب مزید انتظار کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ کتنے سال؟ دو سال، چار سال، چھ سال یا پھر آٹھ سال؟ کیا (خواتین کے ساتھ) یہ سلوک مناسب ہوگا؟ اسے فوراً عمل میں لایا جائے۔ ساتھ ہی ذات پر مبنی مردم شماری کرا کے درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور انتہائی پسماندہ طبقہ (او بی سی) کی خواتین کے لیے ریزرویشن کا انتظام کیا جائے۔

راہل گاندھی (کانگریس):

میری نظر میں ایک چیز (او بی سی کوٹہ نہیں ہونا) اس بل کو نامکمل بناتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بل میں او بی سی ریزرویشن کو شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہندوستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے، خواتین کے بڑے حصے کی ریزرویشن تک رسائی ہونی چاہیے۔ اس بل میں یہ موجود نہیں ہے۔

اس بل میں دو ایسی چیزیں ہیں جو مجھے عجیب و غریب لگتی ہیں۔ ایک یہ کہ بل کو نافذ کرنے کے لیے تازہ مردم شماری کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ دوسری یہ کہ بل کو نافذ کرنے کے لیے نئی حد بندی کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بل آج ہی نافذ ہو سکتا ہے۔


سپریا سولے (این سی پی):

نشی کانت دوبے کہہ رہے ہیں کہ ہم یعنی اپوزیشن اتحاد انڈیا اس طرف ہے جو کہ خواتین کو نیچا دکھاتے ہیں۔ مجھے مہاراشٹر بی جے پی کے سابق چیف نے ٹی وی میں کہا کہ گھر جا اور کھانا بنا۔ ملک کوئی اور چلا لے گا۔ کابینہ وزیر نے میرے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کیا۔ یہ ہے بی جے پی کی ذہنیت۔ ہمارا کوئی کچھ کہتا ہے تو ’انڈیا‘ خراب ہے، لیکن اپنی باری میں نہیں دیکھتے۔ میں ایسے تبصرہ پر رد عمل نہیں دیتی لیکن انھوں نے (نشی کانت دوبے) بولا تو میں نے جواب دیا ہے۔

ہرسمرت کور (شرومنی اکالی دل):

حکومت خواتین کو لڈو دکھا رہی ہے، لیکن کہہ رہی ہے کہ وہ اسے کھا نہیں سکتیں۔ کچھ ہی گھنٹوں میں نوٹ بندی اور لاک ڈاؤن کرنے والی حکومت کو یہ بل لانے میں ساڑھے نو سال کا وقت کیوں لگا؟ جب آپ نے (بی جے پی نے) انتخابی منشور میں خاتون ریزرویشن کا وعدہ کیا، ساڑھے نو سال کیوں لگ گئے؟ لاک ڈاؤن گھنٹوں میں کر سکتے ہیں، نوٹ بندی گھنٹوں میں کر سکتے ہیں تو یہ بل لانے میں آخر ساڑھے نو سال کیوں لگ گئے؟ اب لائے ہیں تو اسے آئندہ لوک سبھا انتخاب سے کیوں نافذ نہیں کر رہے؟


ڈمپل یادو (سماجوادی پارٹی):

لوک سبھا اور اسمبلیوں میں تو یہ بل نافذ ہوگا، کیا راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل میں بھی نافذ ہوگا؟ یہ بل 13 سال سے لٹکا ہوا تھا، لیکن ان کی حکومت (بی جے پی حکومت) کو بھی 10 سال بعد اس کی یاد آئی۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ آنے والے لوک سبھا انتخاب اور پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں یہ نافذ ہو پائے گا کہ نہیں؟

راجیو رنجن (جے ڈی یو):

یہ لوگ (بی جے پی والے) ناری شکتی وَندن (قوتِ نسواں کو سلام) کی بات کرتے ہیں۔ دراصل آپ اپنا بندھن کر رہے ہیں، آپ اپنی کرسی بچانے کے لیے بندھن کر رہے ہیں۔ 2024 کے بعد یہ لوگ کہیں گے کہ یہ تو جملہ ہے۔ آپ کو 2024 میں مُکت ہونا ہے، اسی کا آپ کو خوف ہے۔ میں خاتون ریزرویشن بل کی حمایت کرتا ہوں۔


کاکولی گھوش (ٹی ایم سی):

میں اس (خاتون ریزرویشن بل) کی حمایت میں کھڑی ہوں جو کہ پہلے ہی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ذریعہ مغربی بنگال میں نافذ کیا جا چکا ہے۔ مغربی بنگال ملک کی واحد ایسی ریاست ہے جہاں ایک خاتون وزیر اعلیٰ ہیں، جبکہ ملک کی 16 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود ان میں سے کسی بھی ریاست میں خاتون وزیر اعلیٰ نہیں ہے۔ ممتا بنرجی نے خواتین کے مفاد کے لیے بلند طریقے سے اپنی آواز اٹھائی ہے۔ خاص طور سے بنگال اسمبلی میں ہمارے پاس ملک میں کسی دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ خواتین ہیں، ہمارے یہاں ممتا بنرجی کے ساتھ کئی خاتون وزراء ہیں۔

انوپریا پٹیل (اپنا دل):

خاتون ریزرویشن بل وقت کی ضرورت ہے۔ کئی چھوٹے ممالک نے خواتین کے لیے 50 فیصد شراکت داری یقینی کر لی ہے۔ یہ کوئی نیا بل نہیں ہے، اس کی تاریخ 27 سال قدیم ہے۔ سب سے پہلے 1996 میں بل آیا، اس کے بعد کئی حکومتیں بل لے کر آئیں، لیکن نافذ نہیں ہو پایا۔ اپوزیشن پسماندہ طبقہ سے آنے والی خواتین کے لیے ریزرویشن کی سہولت کا مطالبہ کر رہا ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے اچھی شروعات کی ہے۔ اپوزیشن کہتا ہے کہ 2024 انتخاب کو دیکھتے ہوئے بی جے پی یہ بل لے کر آئی، لیکن اگر یہ بل نہیں لایا جاتا تو اپوزیشن کہتا کہ حکومت خواتین کے مفاد کے بارے میں سوچتی نہیں ہے۔ میں کہتی ہوں کہ اس میں اِدھر اُدھر کی باتیں نہیں ہونی چاہیئں۔ یہ بل قابل استقبال ہے، میں مودی جی کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔


شتروگھن سنہا (ٹی ایم سی):

اس بل کے لیے سب سے پہلے ہماری لیڈر ممتا بنرجی نے آواز اٹھائی تھی۔ یہ بل تاخیر سے آیا ہے لیکن درست آیا ہے۔ اس میں پینچ بہت ہیں، اس لیے بہت زیادہ حمایت دیتے ہوئے بھی کچھ لوگ بہت خوش نہیں ہیں۔ اور جس طرح سے ہم چاہ رہے تھے اس طرح سے بھی (بل) نہیں آ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔