کیا مودی کے لیے خطرہ ہیں گڈکری، اسی لیے پارلیمانی بورڈ سے ہوئی چھٹی؟

آر ایس ایس مفکرین کو لگتا ہے کہ مودی اتنے چالاک ہیں کہ خاموشی کے ساتھ کام کر دیتے ہیں، یہ تو صاف ہے کہ مودی تیسری بار وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں اور وہ 75 سال کے بھی ہونے والے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سجاتا آنندن

نتن گڈکری شاید بی جے پی میں آخری ایسے لیڈر بچے ہیں جو سیاست کے پرانے طور طریقوں پر چلتے ہیں۔ نریندر مودی کی کابینہ میں گڈکری اپنے کام کو لے کر سب سے اچھے وزیر مانے جاتے ہیں۔ ان دونوں اسباب کی بنا پر گڈکری نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ ملک کے دیگر سیاسی لیڈروں کے درمیان سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ایک رسالہ کے ذریعہ شائع سروے میں عام لوگوں نے انھیں کافی پسند بھی کیا۔

گڈکری کے حق میں ایک بات یہ بھی جاتی ہے کہ وہ آر ایس ایس کے بھی پسندیدہ بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ مرکزی کابینہ میں میں سب سے بے باک وزیر ہونے کے باوجود گڈکری ٹکراؤ کا راستہ نہیں اپناتے ہیں اور ہر معاملے میں صلح مشورے سے کام نکالتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ نہ صرف نریندر مودی بلکہ پارٹی کے دیگر ایسے پُرامید کی بھی توجہ مبذول کرتے ہیں جو ہمیشہ ان کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں بی جے پی پارلیمانی بورڈ سے باہر نکال دیا گیا۔ ان کی جگہ نریندر مودی نے دیویندر فڈنویس کو اہمیت دی ہے، کیونکہ وہ زیادہ واویلا نہیں مچاتے، اور ذات-پات کے فارمولے میں بی جے پی کے منصوبے میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ گڈکری اور فڈنویس دونوں ہی ناگپور سے آتے ہیں، اور دیشاسٹھ برہمن ہیں۔ آر ایس ایس میں دیشاسٹھ برہمنوں کی ہمیشہ بالادستی رہی ہے اور موجودہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت بھی دیشاسٹھ برہمن ہیں۔ دونوں کنبوں کی جڑیں آر ایس ایس میں ہیں اور دونوں ہی تقریباً ایک جیسی زبان بولتے ہیں۔ اس سب کے باوجود گڈکری آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے لیے محبوب ہیں۔ ویسے ان کا فڈنویس سے کوئی بیر نہیں ہے، لیکن ہمیشہ سے بھاگوت کا رخ رہا ہے کہ گڈکری بہتر وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت نے گڈکری کو صبر رکھنے کی صلاح دی ہے، کیونکہ وہ نریندر مودی سے عمر میں کافی چھوٹے ہیں اور ان کے پاس کافی وقت ہے۔ دھیان رہے کہ گڈکری تنہا ایسے لیڈر ہیں جنھیں بی جے پی صدر بنائے رکھنے کے لیے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کے لیے آر ایس ایس نے پارٹی اعلیٰ کمان کو مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد گڈکری کو دو سال زیادہ تک بی جے پی کا صدر عہدہ دیا گیا تھا۔ بات 2013 کی ہے جب بی جے پی پیسے کی کمی سے نبرد آزما تھی اور بھاگوت کو یقین تھا کہ گڈکری اپوزیشن کے لیڈر کی شکل میں لال کرشن اڈوانی کی جگہ لے سکتے ہیں۔ آر ایس ایس کا منصوبہ 2019 کے لیے گڈکری کو وزیر اعظم عہدہ کے لیے تیار کرنے کا تھا۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے نریندر مودی سے ٹکراؤ لینا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں اپنے اثر کا استعمال کر پارٹی کو فنڈ دستیاب کرایا۔ مودی نے کارپوریٹ سے ان کے کاروباری مفادات کی قیمت پر پارٹی کے لیے موٹا چندہ حاصل کیا۔ اس کے بعد بی جے پی کے پاس مودی کو وزیر اعظم عہدہ کے لیے نامزد کرنے کے علاوہ کوئی متبادل ہی نہیں بچا تھا۔

آر ایس ایس کے ایک مفکر کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں پہلے سے پتہ تھا نریندر مودی پارٹی کو مرکز میں بھی بالکل اسی طرح اپنے مطابق ہی چلائیں گے جیسا کہ گجرات میں وہ اپنے ہم منصبوں کو راستے سے ہٹاتے ہوئے چلاتے رہے۔ ہم انھیں اپنا امیدوار نہیں بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ بی جے پی نے شروع میں پوسٹر بنائے تھے جس پر لکھا- ابکی بار بی جے پی سرکار۔ لیکن مودی نے پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کو مجبور کیا کہ اسے بدل کر ’ابکی بار، مودی سرکار‘ کیا جائے۔ اور اب تو بی جے پی میں سب کچھ مودی ہی مودی ہے۔‘‘


آر ایس ایس مفکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’لیکن گڈکری کا بھی اس میں کافی تعاون ہے۔ جب بھی مودی اتر پردیش میں ڈبل انجن کی حکومت کی دُہائی دیتے ہیں، تو اس میں ان کا کوئی تعاون نہیں ہوتا، بلکہ وزیر برائے سڑک ٹرانسپورٹیشن کے طور پر گڈکری کے کام کے زور پر مودی اپنی حکومت کی تعریف کرتے ہیں، کیونکہ باقی وزرا کا کام تو ایسا ہے ہی نہیں جس کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بات کو پارٹی کے کارکنان اور عام لوگ بھی جانتے ہیں۔ مودی اور امت شاہ کو اسی سے دقت ہے۔‘‘

کبھی آر ایس ایس کے قریبی رہے، لیکن ہوا کا رخ دیکھ کر سماجوادی بنے شیام پندھاری پانڈے کہتے ہیں ’’ایک لفظ میں کہیں تو حسد ہی صحیح لفظ ہے۔ مودی کو دراصل گڈکری کی بی جے پی کے اندر اور باہر کی مقبولیت سے زبردست حسد ہے، کیونکہ لوگ گڈکری کے کام کو پہچانتے ہیں۔ ان کی آر ایس ایس سے نزدیکیاں بھی ظاہر ہیں، اسی لیے ان کا قدم کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘


پندھاری پانڈے یہ بھی کہتے ہیں کہ گڈکری کے کنبہ اور دوستوں کا کہنا ہے کہ دراصل وہ ضرورت سے زیادہ اتفاق الے شخص ہیں او رمودی کو اس بات کے لیے بھی کبھی چیلنج نہیں دیتے جب ان کی حصولیابیوں کو مودی اپنی حصولیابی کے طور پر شمار کراتے ہیں۔ ایسے میں مودی کو گڈکری سے نہ تو خوف ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی سیاسی خطرہ۔

لیکن گڈکری جب بولتے ہیں تو جو من میں آتا ہے وہ بول دیتے ہیں۔ حال کے دنوں میں ان کا یہ بیان کہ سیاست اب اچھے لوگوں کی جگہ نہیں رہی، اور اچھے لوگوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، ناقابل فراموش ہے۔ آر ایس ایس پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار کا ماننا ہے کہ گڈکری کے اس بیان کے مودی نے کچھ اور ہی مطالب نکال لیے ہیں۔ اور شاید مودی کو لگا کہ گڈکری کا اشارہ ان کی طرف ہے جو کہ خواتین سمیت اپنے سیاسی مخالفین وغیرہ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ گڈکری کا یہ بیان بھی کافی مشہور رہا کہ سیاست اب صرف اقتدار اور نجی فائدے کے لیے کی جا رہی ہے، اور لیڈر صرف 10 فیصد لوگوں کی حمایت سے صرف 10 فیصد کام ہی کرتے ہیں اور سماجی خدمت کو بھول گئے ہیں۔


آر ایس ایس تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’’اس کے علاوہ ایک بات اور ہے کہ کابینہ کی میٹنگوں میں تنہا گڈکری ہی مودی سے اس معاملے میں بحث کرتے ہیں کہ ملک اور لوگوں کے مفاد میں کیا ہے، اور کیا نہیں۔ باقی وزراء تو صرف ’جی حضور‘ والی حالت میں رہتے ہیں۔ مودی کو یہ بالکل اچھا نہیں لگتا ہے۔‘‘ لیکن پھر بھی آر ایس ایس کے سرکردہ عہدیداران کو لگتا ہے کہ مودی اتنے چالاک ہیں کہ چپ چاپ کام کر دیتے ہیں۔ یہ تو صاف ہے کہ مودی تیسری بار وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، اور وہ 75 سال کے بھی ہونے والے ہیں۔ یہ وہ عمر ہے جو انھوں نے خود لیڈروں کی سبکدوشی کے لیے طے کیا ہے۔ اور گڈکری تو مودی سے 10 سال چھوٹے ہیں۔ ایسے میں گڈکری کے پاس موقع ہے کہ وہ بی جے پی کے جیتنے کی حالت میں 2024 میں وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھیں۔ اسی لیے ان کا قد چھوٹا کیا گیا ہے، کیونکہ انھیں پوری طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

آر ایس ایس نظریہ سازوں کا ماننا ہے کہ ’’مودی کو پتہ ہے کہ اگر آئندہ لوک سبھا انتخاب میں گڈکری کو ٹکٹ نہیں دیا تو نہ صرف ناگپور بلکہ مہاراشٹر کے وِدربھ علاقہ میں 25-20 سیٹوں پر اثر پڑے گا۔ اتنا ہی نہیں، اس کا اثر پڑوسی ریاست مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی نظر آئے گا۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں گڈکری نے اپنے سیاسی ہنر سے بی جے پی کے لیے زمین تیار کی ہے۔ ایسا ہی کچھ شیوراج سنگھ چوہان کے معاملے میں بھی ہے۔ اسی لیے دلیل دی جا رہی ہے کہ یہ دونوں گزشتہ 22 سال سے پارلیمانی بورڈ میں رہے ہیں، ایسے میں وتق ہے کہ دوسری ریاستوں کو بھی موقع دیا جائے۔ لیکن مجموعی طور پر آر ایس ایس کو لگتا ہے کہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش کی کچھ تو نمائندگی ہے ہی، اس لیے اسے فی الحال کوئی دقت نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔