گوا انتخاب: بی جے پی کے ’دَل بدلو‘ امیدواروں کے مقابلے بیشتر نئے چہروں کے ساتھ مضبوط نظر آ رہی کانگریس

جی ایف پی لیڈر وجے سردیسائی کہتے ہیں کہ ’’کانگریس نے ان انتخابات میں 75 فیصد نئے چہروں کو اتارا ہے۔ جب لوگ اس نئی کانگریس کا بی جے پی سے موازنہ کرتے ہیں تو انھیں فرق صاف نظر آتا ہے۔‘‘

کانگریس، تصویر آئی اے این ایس
کانگریس، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

گوا انتخاب میں گزشتہ بار بڑی تعداد میں ’دَل بدل‘ کا سامنا کانگریس کرنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس نے یہ کہہ کر مذاق اڑانا چاہا کہ کانگریس کو دیا گیا کوئی بھی ووٹ بالآخر بی جے پی کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور کانگریس رکن اسمبلی پھر پارٹی بدل لیں گے۔ یہاں تک کہ گوا میں سوشل میڈیا میں یہ ’میمس‘ بھی خوب چلا کہ ’کانگریس کو ووٹ دو اور ایک بی جے پی رکن اسمبلی پاؤ‘۔

پچھلی بار جو کچھ ہوا، اس کو دیکھتے ہوئے کانگریس اس مرتبہ بہت محتاط، منظم اور منصوبہ کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ اس نے پارٹی بدلنے والے کئی لیڈروں کی ’گھر واپسی‘ کی کوششوں کو دور سے ہی نمستے کر دیا۔ 2017 سے مختلف انداز اختیار کرتے ہوئے پارٹی نے اس بار گوا فارورڈ پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ انتخاب سے کافی پہلے اس نے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا اور ان کے متبادل تک سوچ رکھے ہیں۔ پارٹی 37 سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے اور اس نے بیشتر بے داغ نئے چہروں کو موقع دیا ہے اور امیدواروں کو ’دَل بدل‘ کے خلاف کسی مندر، چرچ یا درگاہ میں نہ صرف حلف لینے کو کہا ہے بلکہ اس کا حلف نامہ دینے کو بھی کہا ہے کہ وہ پارٹی نہیں بدلیں گے۔ اس سے ’دَل بدل‘ تو نہیں رکے گا، لیکن اگر کوئی بھی ایسا کرے گا تو اسے اپنے قدم کے بارے میں بتانا مشکل تو ہوگا ہی۔


سابق وزیر اعلیٰ دگمبر کامت کہتے بھی ہیں کہ ’’لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ کانگریس سنجیدہ ہے اور ’دَل بدل‘ اب پارٹی کے لیے ایشو نہیں ہے۔ اگر جیت کے بعد کوئی پارٹی بدلتا ہے تو اسے عوام کو جواب دینا ہوگا۔‘‘ سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر منوج کامت مانتے ہیں کہ گوا میں یہ پارٹی نئی کانگریس کے دور پر دیکھی جا رہی ہے جو پہلے سے مختلف ہے۔ پارٹی اب کسی خاص شخص پر مرکوز بھی نہیں لگ رہی۔

کانگریس نے سابق وزیر اعلیٰ روی نائک کو بھی باہر کا راستہ دکھانے کی ہمت دکھائی۔ بالآخر وہ بی جے پی میں چلے گئے۔ روی نائک پونڈا سے بی جے پی امیدوار ہیں جہاں سے کانگریس نے راجیشور نیکر کو اپنا امیدوار بنانے کا اعلان چھ مہینے پہلے ہی کر دیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کے پاس سابق وزیر اعلیٰ لوئجنہو فلیرو کا متبادل تیار تھا۔ فلیرو ترنمول کانگریس میں چلے گئے۔ ڈاکٹر کامت کہتے ہیں کہ ’’دوسرے اسمبلی حلقوں میں بھی اسی طرح کی تیاری نظر آتی ہے۔ اس کے پاس پلان بی تیار دکھائی دیتا ہے۔‘‘ وکیل رادھا راؤ گریسیس بھی مانتے ہیں کہ 2022 کی کانگریس معاف نہ کرنے والی ہے اور وہ معاف کرنے اور بھول جانے کی روایت پر عمل بھی نہیں کر رہی ہے۔


اس دفعہ کانگریس بلاک سطح کے اپنے کارکنان تک کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے۔ مورمگاؤ سے اس کے امیدوار سنکلپ آمونکر نے ایک سیکس اسکینڈل کا انکشاف کیا جس وجہ سے ایک وزیر کو حکومت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ امونکر کی طرح پارٹی نے کویپم سے الٹون ڈکوسکا کو حمایت دی ہے۔ یہاں سے نائب وزیر اعلیٰ اور سابق کانگریسی چندرکانت بابو کاولیکر بھی امیدوار ہیں۔ کیناکونا سے امیدوار جناردن بھنڈاری بھی پارٹی کے لیے وقف کارکن ہیں۔

جی ایف پی لیڈر وجے سردیسائی کہتے ہیں کہ ’’کانگریس نے ان انتخابات میں 75 فیصد نئے چہروں کو اتارا ہے۔ جب لوگ اس نئی کانگریس کا بی جے پی سے موازنہ کرتے ہیں تو انھیں فرق صاف نظر آتا ہے۔ برسراقتدار پارٹی کے تقریباً 50 فیصد امیدوار یا تو ’دَل بدلو‘ ہیں یا ’دَل بدلو‘ کنبہ سے ہیں۔ انتخاب سے قبل ہماری اتحادی ٹیم گوا کو لے کر میرے نظریہ کی پیشکش ہے۔

(نوجیون انڈیا کے لیے تحریر کردہ آدتیہ آنند کے ہندی مضمون کا اردو ترجمہ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔