مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ’آئیڈیا آف انڈیا‘ اور ’کانگریس‘ کے نظریات... کمار کیتکر

جس طرح ’آئیڈیا آف انڈیا‘ تجریدی تصور ہے، ویسے ہی کانگریس بھی ایک نظریہ ہے جسے یک رنگی سیاسی پارٹی سمجھنے کی جگہ ایسی سیاسی تخلیق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو کثیر رنگی ہے۔

کانگریس، تصویر ٹوئٹر INCIndia
کانگریس، تصویر ٹوئٹر INCIndia
user

کمار کیتکر

1970 کی دہائی میں جب ایک مشہور و معروف سیاسی تجزیہ نگار نے ’کانگریسی سسٹم‘ لفظ کا استعمال کیا، تب واقعی میں یہ مبینہ ’سسٹم‘ زیادہ دباؤ میں تھا اور تخریب کاری کا شکار ہو رہا تھا۔ اس کے لیے خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے پیدا ہوا تھا اور نئے طرح کا سیاسی دباؤ بن رہا تھا۔ 1967 میں کانگریس کو 8 ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت تک ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کے نظریہ کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی، لیکن ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخاب ایک ساتھ ہوئے تھے۔ تب لوک سبھا کا انتخاب بھی کانگریس کسی طرح جیت پائی تھی۔ کانگریس کو کسی ایک متبادل قومی طاقت نے نہیں بکلہ بہت ساری نئی اور یہاں تک کہ یکسر مخالف طاقتوں یا سیاسی اتحاد نے شکست دی تھی۔

تمل ناڈو کی ڈی ایم کے اور مغربی بنگال کی سی پی ایم میں کسی طرح کی کوئی یکسانیت نہیں تھی۔ ویسے ہی پنجاب کے اکالی دل اور مدھیہ پردیش، اتر پردیش و راجستھان میں ہندوتوا پر مبنی ’جن سنگھ‘ میں بھی کوئی یکسانیت نہیں تھی۔ اسی سال یعنی 1967 میں ہی سماجوادی لیڈر رام منوہر لوہیا نے کانگریس مخالف پارٹیوں کا ایک محاذ بنانے کی اپیل کی تھی اور اس طرح ملک میں غیر کانگریسی سیاست نے پہلی بار ایک ٹھوس شکل اختیار کی۔ افسوسناک یہ ہے کہ رام منوہر لوہیا کی اس اپیل کا فائدہ سماجوادیوں کی جگہ ہندوتوادی طاقتوں کو ملا، جبکہ یہ دونوں یکسر مخالف تھے۔ ہندوتوادی طاقتوں کو اس کے بعد مضبوطی دے گئے جئے پرکاش نارائن۔ 1977 میں جب جئے پرکاش نارائن نے جنتا پارٹی تشکیل دی، تو ان طاقتوں کو پیر جمانے کا مزید ایک موقع مل گیا۔ آج نریندر مودی کی بی جے پی اسی کانگریس مخالفت پر زندہ ہے۔


حالانکہ اندرا گاندھی نے 1971 کا ’غریبی ہٹاؤ‘ الیکشن جیتا اور پھر 1977 میں ایمرجنسی کے بعد ہوئے انتخاب میں شکست کے بعد انھوں نے 1980 کے انتخاب میں شاندار واپسی کی اور اس طرح رجنی کوٹھاری کے ’کانگریس سسٹم‘ کا نظریہ زندہ رہا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی مکالفت میں پیدا ’سسٹم‘ نے بھی اپنے لیے جگہ بنا لی تھی۔ کانگریس کو اکثر ’چھتری پارٹی‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا رہا، کیونکہ یہ ایسی تنظیم رہی جس کے سایہ میں مختلف گروپ ایک ساتھ رہے۔ جس طرح ’آئیڈیا آف انڈیا‘ ایک تجریدی تصور ہے، ویسے ہی کانگریس بھی ایک نظریہ ہے جسے یک رنگی سیاسی پارٹی کی شکل میں متعارف کیے جانے کی جگہ اسے ایسی سیاسی تخلیق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو کثیر رنگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’ہندوستان کا نظریہ‘ اور ’کانگریس کا نظریہ‘ بڑی مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ ’ہندوستان کا نظریہ‘ یا پھر ’کانگریس کا نظریہ‘ آخر ہے کیا؟ اس کے دل کی دھڑکنیں کہاں ہیں؟ دراصل اس کی جڑیں آزادی کی تحریک، گاندھی جی کے نظریات اور گاندھی جی کے اعلان کردہ جانشیں پنڈت جواہر لال نہرو کے نظریات میں پیوست ہیں۔ انہی نظریات کے ساتھ اس ملک کی پیدائش ہوئی۔ سماجی انصاف کے تئیں پرعزم ایک سیکولر جمہوریت، سائنسی سوچ میں لپٹے جدید ملک کا تصور، بین الاقوامی رشتوں میں غیر وابستگی جیسے پالیسی پر مبنی اصولوں کی شکل میں یہ نظریات آگے بھی ملک کی بنیاد بنے رہے۔ کانگریس اور ملک، دونوں کے نظریات کی بنیاد رہے گاندھی وادی اقدار۔ یہی درست ہے کہ ان نظریات پر ہمیشہ پوری طرح عمل نہیں ہوتا لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ اس کی نظریاتی بنیاد یہی ہے۔


کانگریس کو کس طرح کی پارٹی مانا جائے۔ کانگریس کو دائیں محاذ کی طرف جھکی پارٹی تو نہیں ہی کہا جا سکتا ہے، اور سچ کہیں تو ’دائیں یا بائیں‘ ان دونوں ہی سمتوں سے کانگریس کے نظریات الگ ہیں۔ حالانکہ دیکھنے والے اس میں دونوں کی ہی جھلک دیکھتے ہیں۔ اندرا گاندھی کی قیادت میں جب بینکوں، انشورنس کمپنیوں، کوئلہ کانوں کا نیشنلائزیشن ہوتا ہے تو اس میں بایاں محاذ کی طرف جھکاؤ دیکھا جاتا ہے، اور جب نرسمہا راؤ-منموہن سنگھ کی قیادت میں معیشت کا لبرلائزیشن کیا جاتا ہے تو کانگریس میں دایاں محاذ والا رجحان دیکھا جاتا ہے۔ لبرلائزیشن کے وقت کانگریس کو اس طرح کی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کہ اس نے نہرو کے سماجواد کو قربان کر دیا۔

کچھ کمیونسٹ خود پنڈت نہرو کی ان کے مبینہ پونجی وادی رجحان کے لیے تنقید کرتے تھے اور سوتنتر پارٹی تو انھیں ’دل سے کمیونسٹ‘ کہا کرتی تھی۔ سماجوادی اور کمیونسٹ پنڈت جی کی ’مکسڈ معیشت‘ پالیسی کی یہ کہہ کر تنقید کرتے تھے کہ یہ ظاہری طور سے پرائیویٹ سیکٹر کے پونجی واد کو فروغ دینا ہے۔ سوتنتر پارٹی کو منصوبہ کے اس مہالنوبس فارمولہ میں سوویت انداز دکھائی دیتا تھا اور وہ یہ کہتے ہوئے تنقید کرتی تھی کہ یہ پچھلے دروازے سے سوویت یونین جیسا سماجواد لانے کی کوشش ہے۔


حالانکہ نہرو مضبوط پبلک سیکٹر کی پالیسی کی وکالت کرتے تھے، لیکن انھوں نے کسی بھی بڑے کاروباری گروپ کا نیشنلائزیشن کرنے کی پیش قدمی نہیں کی۔ درحقیقت پرائیویٹ سیکٹر کا جو بھی تھوڑا بہت نیشنلائزیشن ہوا، وہ اندرا گاندھی کے دور میں ہوا اور انہی کی پیش قدمی پر ’سماجوادی‘ اور ’سیکولر‘ لفظ آئین کی تمہید میں جوڑے گئے۔

کانگریس کا مبینہ ’مرکز واد‘ لازمی طور سے ایک تجرباتی، لبرل رخ تھا جس نے مختلف سماجی گروپوں اور معاشی مفادات کے لیے جگہ بنائی۔ کانگریس کی پالیسیوں نے عوامی خدشات اور ذاتی مفادات کے درمیان توازن قائم کیا۔ کانگریس نے سماجی فلاحی منصوبوں کے ذریعہ محروم طبقہ کو بھروسہ دیا، تو چھوٹے اور متوسط کاروباروں کی حوصلہ افزائی بھی کی، اور بڑلا و ٹاٹا جیسے سرمایہ دار گھرانوں کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔

کمیونسٹ ہوں یا سماجوادی، کسی کے بھی پاس کانگریس جیسا وسیع مینڈیٹ نہیں تھا۔ کانگریس کے پاس آر ایس ایس جیسا کیڈر بھی نہیں ہے جو بی جے پی کے لیے کام کرتا ہے۔ نہ ہی کمیونسٹوں کی طرح کارکنان ہیں جنھیں ٹریڈ یونین تحریک کے لیے ٹرینڈ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص کمیونسٹ پارٹی کا کارڈ ہولڈر تب تک نہیں بن سکتا جب تک کہ ممبر سلیکشن بورڈ ہری جھنڈی نہ دکھا دے۔ ویسے ہی آپ تب تک آر ایس ایس میں شامل نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو قبول نہیں کیا جاتا۔ بی جے پی میں ’در اندازوں‘ کا استقبال ہو سکتا ہے، لیکن آر ایس ایس میں نہیں۔


یہاں تک کہ ذات پر مبنی پارٹیاں بھی چھان بین کر کے ہی لوگوں کو لیتی ہے۔ لیکن کانگریس کے دروازے سبھی کے لیے کھلے ہیں۔ کانگریس ایک کھلا گھر ہے جس میں کوئی بھی آ سکتا ہے، کوئی بھی جا سکتا ہے۔ کوئی بھی اس کا رکن بن سکتا ہے اور کوئی بھی اسے چھوڑ سکتا ہے۔ کوئی بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کی تعریف کر سکتا ہے، تو کوئی بھی اس کی تنقید کر سکتا ہے۔ گروپ بنائے جا سکتے ہیں، گروپ توڑے جا سکتے ہیں... پھر بھی کارواں چلتا رہتا ہے۔ ایسی ہے کانگریس!

پنڈت نہرو ایسے لوگوں سے گھرے ہوئے تھے جو ہندوتوا نظریہ میں مضبوطی کے ساتھ یقین کرتے تھے، پھر بھی ان سب نے نہرو کی قیادت کو قبول کیا۔ اندرا گاندھی پارٹی کے دایاں محاذ گروپ سے گھری رہتی تھیں، جسے ’سنڈیکیٹ‘ نام سے بھی جانا جاتا ہے، لیکن ان کے مبینہ ’کچن کیبنٹ‘ میں مارکسوادی یا واضح طور سے سوویت یونین کی طرف جھکے لوگ بھی تھے۔ مورار جی دیسائی جیسی گاندھی وادی بھی تھے، جو نہرو کی کابینہ سے لے کر اندرا کی کابینہ تک کا حصہ رہے۔


پارٹی چلتی رہی، انتخاب جیتتی رہی جب تک کہ 1967 کے جھٹکوں نے سیاسی متبادل کا امکان پیش نہیں کیا۔ تب تک علاقائی پارٹیوں کا کوئی حقیقی وجود نہیں تھا۔ ڈی ایم کے 1967 میں اقتدار میں آئی۔ بعد میں یہ ٹوٹ گئی اور اس طرح اے آئی اے ڈی ایم کے اور کچھ دیگر گروپوں کی بنیاد پڑی۔ لیکن یہ ریاست کبھی کانگریس کے حصے میں نہیں آیا۔

وجود کی لڑائی نے بھی غالباً کانگریس میں نظریاتی عدم استحکام کی حالت پیدا کی ہے۔ پارٹی میں کئی ایسےلوگ ہیں جو قدامت پرست اعلیٰ ذات ہندو ووٹ پانے کے لیے ’نرم ہندوتوا‘ کے راستے پر بڑھنا درست سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پارٹی مزید مضبوطی کے ساتھ غریبوں، محروموں، پسماندوں اور حاشیہ پر پڑے لوگوں کی بات کرے۔ ہندوستانی سماج کئی حصوں میں منقسم ہے اور ایسی کوئی تنہا پارٹی نہیں جو سبھی کو بھروسہ دلا سکے، اور ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ یہ کہا جا سکے کہ کانگریس لوگوں کا وہ بھروسہ دوبارہ جیت سکے گی۔

(مضمون نگار کمار کیتکر سینئر صحافی اور کانگریس سے راجیہ سبھا رکن ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔