ہماچل: کانگریس کا سُکھ اور بی جے پی کا دُکھ!

سکھوندر سکھو کو وزیراعلیٰ بنا کر کانگریس نے ہماچل میں ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ اول یہ کہ بی جے پی کی خریدوفرخت کی کوشش کو ناکام بنا دیا دوسرا یہ 2024 کے لیے ریاست میں اپنا راستہ ہموار کرلیا۔

 ہماچل کے نئے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو، راہل گاندھی اور مکیش اگنی ہوتری، تصویر یو این آئی
ہماچل کے نئے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو، راہل گاندھی اور مکیش اگنی ہوتری، تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

ہماچل پردیش کی ہار کے زخم پر بی جے پی ابھی ’ایک فیصد کم ووٹ‘ کا مرہم ہی لگا رہی تھی کہ کانگریس نے اسے ایک اور جھٹکا دے دیا۔ اس نے نادون سیٹ سے چوتھی بار کامیاب ہونے والے سکھوندر سنگھ سکھو کو وزیراعلیٰ اور ہرولی سیٹ سے پانچویں بار منتخب ہونے والے مکیش اگنی ہوتری کو نائب وزیراعلیٰ بنا دیا۔ حکومت کی زمامِ کار ان دونوں کے ہاتھ میں آجانے سے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ کیونکہ قومی میڈیا کے ذریعے یہ خبر اڑائی گئی تھی کہ کانگریس کے 18؍ارکانِ اسمبلی بی جے پی کے رابطے میں چلے گئے تھے۔ لیکن سکھو اور اگنی ہوتری کی حلف برداری سے یہ خبر نہ صرف افواہ ثابت ہوئی بلکہ اس کے برخلاف یہ خبر آگئی کہ بی جے پی کے 7 سے 8 ممبراسمبلی اب کانگریس کے رابطے میں آگئے ہیں۔ اب اس دور میں کوئی اتنا بھی بھولا نہیں ہے کہ ’رابطے‘ کا مطلب نہ سمجھ سکے۔

سکھو کے وزیراعلیٰ اور اگنی ہوتری کے نائب وزیراعلیٰ بن جانے سے سب سے زیادہ دکھ اگر کسی کو ہوا ہے تو وہ مرکزی وزیر اور ’گولی مارو فیم‘ انوراگ ٹھاکر ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں جس اسمبلی حلقے سے آتے ہیں وہ اسی پارلیمانی حلقے میں ہیں جہاں سے انوراگ ٹھاکر ممبرپارلیمنٹ ہیں۔ اس پارلیمانی سیٹ پر گزشتہ 40 سالوں سے بی جے پی کا دبدبہ تھا لیکن اس دبدبے کے باوجود اس بار یہاں کی 17؍ میں سے 12؍ سیٹوں پر کانگریس نے قبضہ کرلیا۔ انوراگ ٹھاکر نے یہاں پر بی جے پی کو جتانے کے لیے ہرجتن کر ڈالے تھے۔ پردھان سیوک سے لے کر امیت شاہ تک اور جے پی نڈا سے لے کر یوگی آدتیہ ناتھ تک ہر کسی نے اس پارلیمانی حلقے میں ریلیاں کیں، لیکن ان سب کے باوجود بی جے پی یہاں 3 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ سکھو اور اگنی ہوتری کی نگاہ اب انوراگ ٹھاکر کی سیٹ پر ہوگی جہاں سے وہ دوبار سے ممبرپارلیمنٹ منتخب ہو رہے ہیں۔ کانگریس حمیرپور میں اپنے حق میں ہونے والی رائے دہی کی بنیاد پر 2024 کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اگر اس پارلیمانی سیٹ پر کانگریس قبضہ کر لیتی ہے تو ظاہر سی بات ہے انوراگ ٹھاکر کا سیاسی کیریئر ہی داؤ پر لگ جائے گا۔


ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حالتِ زار دیکھ کر قطر میں جاری فیفا ورلڈکپ میں برازیل و کروشیا کا وہ میچ یاد آگیا جس میں ایک پینالٹی شوٹ کے ذریعے کروشیا نے کئی بار کی ورلڈ چیمئن ٹیم کو سیمی فائنل سے باہر کر دیا۔ بی جے پی کو بڑا زعم اور اطمینان تھا کہ وہ کانگریس کے معمولی کھلاڑیوں کو گول کرنے کا موقع نہیں دے گی، لیکن انہیں معمولی کھلاڑیوں نے نہ صرف گول کر دیا بلکہ بی جے پی کے لیے پورے ملک میں ہزیمت کا سامان بھی کر دیا۔ انوراگ ٹھاکر بی جے پی کے بہت تیز و طرار کھلاڑی مانے جاتے ہیں، لیکن اس بار ان کے ہی گراؤنڈ میں سکھو ندرسنگھ سکھو نے انہیں ایک بھی گول کا موقع نہیں دیا۔ وہ اپنے شہر کی پانچوں سیٹوں پر چاروں خانے چت ہوگئے۔

ہماچل کی انتخابی مہم کے دوران معلوم نہیں کیوں وہاں کے لوگوں نے بی جے پی کے ہر اعلان و اپیل کا الٹا ہی مطلب سمجھا۔ ویسے بھی جب کرپال پرمار جیسے بی جے پی کے باغیوں کی سمجھ میں پردھان سیوک کی بات نہیں آئی تو بھلا عام لوگوں کی سمجھ میں کیا آتی۔ یہی وجہ رہی کہ جب پردھان سیوک نے رواج بدلنے کا نعرہ دیا تو پتہ چلا کہ لوگوں نے بی جے پی کو ہی بدل دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماچل کے لوگ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لائیں گے اور حساب مانگیں گے۔ لوگ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں لائے البتہ حساب ضرور مانگ لیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حساب بی جے پی سے ہی مانگ لیا۔ ویسے بھی جو برسرِ اقتدار ہوتا ہے، حساب بھی اسی مانگا جاتا ہے اور سوال بھی اسی سے کیے جاتے ہیں۔ یہ بات ہماچل کے لوگوں کی سمجھ میں تو آگئی لیکن ہمارے قومی میڈیا کی سمجھ میں آج تک نہیں آئی۔


انتخابات میں جیت ہار کا بی جے پی کا اپنا الگ ہی تجزیہ ہوتا ہے۔ اگر وہ ہار جاتی ہے تو ووٹ فیصد کو بنیاد پر اپنی خفت چھپانے کی کوشش کرتی ہے جس طرح ہماچل میں کر رہی ہے۔ اور اگر وہ جیت جاتی ہے تو سیٹوں کے اعدادو شمار پیش کرتی ہے جس طرح گجرات میں پیش کر رہی ہے۔ اسی طرح جس ریاست میں وہ کامیاب ہوتی ہے تو اس کا سہرا پردھان سیوک کے سرباندھتی ہے اور جہاں وہ ہار جاتی ہے تو اس کا ٹھیکرا قومی یا ریاستی صدور کے سر پھوڑتی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تجریے کا یہی پیمانہ وہ دوسری پارٹیوں کے لیے نہیں اپناتی۔ لیکن دشواری تو اس وقت ہو جاتی ہے جب پردھان سیوک اپنے نام پر ووٹ مانگتے ہیں اور لوگ انہیں ہی دھتکار دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں تو پردھان سیوک کو ہی ہار کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ لیکن اس ایمانداری کی توقع موصوف سے کرنا فضول ہے۔

 ہماچل پردیش میں انتخابی مہم ختم ہونے کے بعد پردھان سیوک نے ہماچل کے لوگوں کے نام ایک خط جاری کیا تھا۔ اس خط میں انہوں نے صاف طور سے کہا تھا کہ کمل کو دیا گیا آپ کا ایک ایک ووٹ مجھے مزید مضبوط کرے گا۔ اپنے خط میں انہوں نے نہایت جذباتی انداز میں بی جے پی کے حق میں لوگوں سے ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ لیکن لوگوں کو ان کی جذباتی باتوں سے زیادہ کانگریس کی حقیقی مسائل سے وابستگی پسند آئی۔ کانگریس نے مہنگائی، بیروزگاری اور پرانی پینشن اسکیم کو موضوع بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ شکست براہ راست پردھان سیوک کی ہے۔ اگر وہ یہ خط نہ بھی تحریر کرتے تو بھی بی جے پی ہار جاتی، لیکن ایسا کرکے انہوں نے اپنی رسوائی کا مزید سامان کر دیا۔


یوں بھی جتنے بھی انتخاب ہوئے، سبھی میں بی جے پی کے ذریعے پردھان سیوک کے ہی نام پر ووٹ مانگا گیا۔ ہماچل میں اگر براہِ راست مودی نے اپنے نام پر ووٹ مانگا تو گجرات و دہلی میں ان کے حوالے سے ووٹ مانگا گیا۔ اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ 7 ضمنی انتخاب میں سے ۵ اور تین ریاستی انتخابات میں سے 2 پر بی جے پی ہار گئی۔ 7 ضمنی انتخاب میں سے جن دو سیٹوں پر بی جے پی جیتی ہے ان میں رام پور کی سیٹ پر اس کا جبراً قبضہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا کی نگاہوں میں پردھان سیوک ناقابلِ شکست ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پردھان سیوک اتنے بڑے لیڈر ہیں نہیں جتنا میڈیا انہیں بڑا بتاتا ہے۔ وہ یوگ پروش سے لے کر وشوگرو تک جو بھی ہیں میڈیا کی وجہ سے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اب یہ باتیں بھی کہی جانے لگی ہیں کہ اگر ہفتے بھر کے لیے ہمارا قومی میڈیا اپنا فرضِ منصبی نبھا دے تو پردھان سیوک اور ان کی پارٹی اسی دور میں پہنچ جائے گی جہاں سے شروعات کی تھی۔

کانگریس نے سکھوندر سکھ سکھو اور مکیش اگنی ہوتری کو وزیراعلیٰ و نائب وزیراعلیٰ بناکر ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس نے ریاستی بی جے پی کے سامنے ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دی ہے جس سے کرناٹک و مدھیہ پردیش کا ڈرامہ کھیلنے کا اسے موقع نہیں ملے گا۔ کیونکہ ان دونوں لیڈران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں نہ صرف اپنا محفوظہ برقرار رکھنے کی صلاحیت ہے بلکہ یہ دوسرے کے محفوظے پر شب خون بھی مار سکتے ہیں۔ اس لیے بی جے پی ہماچل میں کانگریس کے کسی ارکان کو توڑنے یا خریدنے کی ہمت نہیں کرسکے گی۔ دوسرا یہ کہ اس کے ذریعہ وہ بی جے پی کے ایک مضبوط قلعے میں سیندھ لگائے گی اور اس سیندھ کا براہِ راست نقصان انوراگ ٹھاکر اور جے پی نڈا کو ہی ہوگا۔ ویسے بھی ہماچل پردیش کی روایت ہر پانچ سال اقتدرا کی تبدیلی کی ہے۔ یہ پانچ سال 2027 میں آئے گا۔ لیکن اس سے پہلے 2024 ہے۔


کانگریس کی حکومت بننے کے بعد ہی نائب وزیراعلیٰ اگنی ہوتری نے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان وعدوں میں سب سے بڑا وعدہ پرانی پینشن اسکیم کی بحالی کا ہے۔ کیونکہ ہماچل پردیش میں ہر تیسرے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد سرکاری ملازم ہے۔ اگر کانگریس اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ 2024 میں لوگ ایک بار پھر کانگریس پر اپنے اعتماد کا اظہار کریں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقین جانیے کہ کانگریس کے سکھو بی جے پی کے لیے ایک بڑے دکھ کا ذریعہ بن جائیں گے۔ ہمارے قومی میڈیا کا پورا زور چونکہ گجرات میں مودی میجک پر لگا ہوا ہے اس لیے سکھو و اگنی ہوتری کی وجہ سے بی جے پی میں آئے بھونچال پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔