گجرات: گھبراہٹ کی کچھ تو وجہ ہے!

گجرات میں انتخاب جیتنے کے لیے بی جے پی نے جو جوحربے اختیار کیے وہ سب اس بات کے ثبوت ہیں کہ بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور گھبراہٹ حد سے زیادہ ہے

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

آج جب یہ سطریں آپ کے سامنے ہوں گی تو اس وقت گجرات میں دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ہوچکی ہوگی۔ گزشتہ کل دہلی کے میونسپل کارپوریشن کی ووٹنگ ہوئی ہے، یکم دسمبر کو گجرات کے پہلے مرحلے کی اور گزشتہ ماہ 12؍نومبر کو ہماچل پردیش کی۔ 7 دسمبر کو دہلی ایم سی ڈی کا نتیجہ آنے والا ہے جبکہ 8 کو گجرات وہماچل کا۔ اس طرح گویا اس سال کا اختتام اس انتخابی تماشے کے نذر ہو رہا ہے جسے مرکز میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے پردھان سیوک صاحب نے ’لوک تنتر کا پَرو ‘یعنی جمہوریت کا تہوار قراردینا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تہوار ہوگا تو کھیل تماشے بھی ہوں گے اور پھر کھیل تماشوں میں کرتب بازی کی اہمیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے؟

شاید یہی وجہ رہی کہ انتخابی تماشے میں نت نئی کرتب بازیوں کا خوب جم کر مظاہرہ ہوا۔ گجرات انتخابات چونکہ بی جے پی کے لیے زندگی وموت کا معاملہ بن چکا ہے، اس لیے ہر روز نت نئی کرتب بازی بھی سامنے آ رہی ہے۔ پہلی کرتب بازی ایمبولینس گزارنے کی صورت میں سامنے آئی جس میں پردھان سیوک صاحب اپنا قافلہ روک کر ایمبولینس کو راستہ دیتے نظر آئے۔ لیکن اس کی اسکرپٹ لکھنے والے اس قدر بودے ثابت ہوئے کہ محض چند گھنٹوں میں ہی یہ حقیقت عوام کے سامنے اجاگر ہوگئی کہ ایمبولینس راہِ قافلہ پر پہلے ہی سے لاکر کھڑی کردی گئی تھی۔ اس طرح پرددھان سیوک صاحب کے روڈ شو ختم ہونے سے قبل ہی لوگوں کو اس کے مصنوعی ہونے کا پتہ چل گیا۔


ویسے کب تک لوگ ایک ہی طرح کا تماشا اور کرتب برداشت کرتے؟ اس سے پہلے ہماچل کے لوگوں کو بھی اسی کا مظاہرہ کرایا گیا تھا اور پھر اس کے بعد گجراتیوں کو بھی یہی دکھایا گیا تھا۔ ہماچل پردیش میں جب اس کا پہلا شو ہوا تو عوام نے تھوڑی دیر کے لیے اس کے حقیقی ہونے کا گمان بھی کرلیا تھا، لیکن جب یہی گجرات میں بھی دہرایا گیا تو بلی تھیلے سے باہر آگئی اور جب گجرات میں ہی اسے تیسری بار دہرایا گیا تو لوگوں کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ اس معاملے میں اس قدر پھوہڑپن کا مظاہرہ کیا گیا کہ قومی میڈیا تک پر یہ بات آگئی کہ ایمبولینس گزارنے کا پورا پروگرام پہلے سے پلانٹ کیا گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ عوام کو کرتب بازی اچھی لگتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہمیشہ وہ نیا پن بھی چاہتی ہے۔ ایمبولینس کے یہ تماشے عوام کو قطعی متاثر نہیں کرسکے۔

گجرات میں انتخابی مہم جب پورے شباب پر تھی اور اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی سے جب اس مہم کو عوامی مسائل کے گرد لاکھڑا کر دیا تو پھر کسی ایسے ڈرامے کی ضرورت ہوئی جس سے اس مہم پر دیش بھکتی کا تڑکا لگایا جاسکے۔ اس کے لیے ملک کی سیکوریٹی کا معاملہ سامنے لایا گیا۔ ہوا یوں کہ اچانک ہی ہندوستانی فوج کے شمالی کمان کے کمانڈر لیفیٹنٹ جنرل اوپیندردیویدی کا بیان سامنے آگیا کہ پی او کے کو واپس لینے کے لیے ہندوستانی فوج پوری طرح تیار ہے۔ جب حکومت حکم دے گی، ہم اس پر عمل کردیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے جنرل دیویدی کے اس بیان سے بی جے پی کو بجائے فائدے کے نقصان ہوگیا۔


کسی ہندوستانی کو اپنی فوج کی قابلیت پر ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہماری فوج اتنی طاقتور ہے کہ اسے اگر حکم دیا جائے تو وہ پی او کے پر قبضہ ہی کیا چین کو بھی اپنی حد سے باہر کھدیڑ سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کی اجازت بھی ضروری ہے کیونکہ فوج اپنے طور پر کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ جنرل دیویدی صاحب کے اس بیان سے لوگوں کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ ہندوستانی فوج تو تیار بیٹھی ہے لیکن حکومت ہی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ اس بیان کے سائڈ ایفکٹ کا اندازہ ہوتے ہیں دوسرے ہی روز میڈیا سے یہ موضوع غائب ہوگیا۔ ظاہرہے کہ اگر یہ موضوع دو تین روز مزید گرم رہتا تو لوگ یہ سوال کرنے لگ جاتے کہ جب فوج تیار بیٹھی ہے تو حکومت کو اجازت دینے میں کیا حرج ہے؟

شاید یہی وجہ ہے کہ جب گجرات میں آخری مرحلے کی ووٹنگ ہو رہی تھی میڈیا میں اتراکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ ہریش راوت کا یہ بیان گردش کر رہا تھا کہ یہی صحیح وقت ہے پی او کے کو واپس لینے کا، حکومت کو اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہئے۔ جبکہ ہریش راوت بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابی فائدے کے لیے کسی موضوع کو کیش کرنا اور اس پر عمل کرنا دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔عمل کے لیے قوتِ ارادی کی ضرورت ہوتی ہے اور جب حکومت ہی ایک پارٹی میں تبدیل ہوجائے اور اس پارٹی کی پوری قوت ہی انتخاب جیتنے پر مرکوز ہوجائے تو حملے اور قبضے کی باتیں بھی پولرائزیشن کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو چین کی داراندازی پر کب کا ایکشن لے لیا گیا ہوتا کیونکہ وہ تو ہماری سرحدوں کے اندر تک داخل ہوچکا ہے۔


اس کے بعد ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بے کسی ولاچاری کا کھیل شروع ہوا۔ پردھان سیوک خود اپنی ریلیوں میں اعلان فرمانے لگے کہ انہیں اپوزیشن والے گالیاں دیتے ہیں، وہ روزآنہ ڈیڑھ دو کلو گالیاں کھاتے ہیں، انہیں سو سروں والا راون کہا جاتا ہے جو گجراتیوں کی توہین ہے اور یہ کہ وہ گجرات کے بیٹے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس گجرات میں بی جے پی 27 سالوں سے برسرِ اقتدار ہے اور جس کے ماڈل کو پورے ملک میں وہ کیش کرتی رہی ہے، انہیں لوگوں کو آج بھی یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ مودی صاحب گجرات کے بیٹے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ انہیں گجرات کا بیٹا ہی نہیں مانتے ہیں؟

خود کو گجرات کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے آخری دن ایک اور داؤ کھیلا گیا۔ پردھان سیوک صاحب نے اپنی والدہ محترمہ سے ملاقات کی۔ ظاہر ہے ملاقات بھی کیمروں کے فلیش کے درمیان ہی ہوئی اور چندہی گھنٹوں میں اس کی مختلف زاویے کی تصویریں قومی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی انتخابی مہم کے دوران گجرات میں موصوف کئی کئی دنوں تک رہے، ہزارہا لوگوں سے ملاقاتیں کیں، کئی کئی گھنٹوں تک روڈ شو فرمائے، لیکن اگر کسی سے ملاقات کا موقع نہیں ملا تو وہ اپنی والدہ سے۔ ماں کا درجہ بہت عظیم ہوتا ہے اور ایسی صورت میں جبکہ ماں ضعیفی کی عمر کو پہنچ جائیں توشب وروز ان کی خدمت کرنا ہمارے ملک کی راویت بھی ہے۔ لیکن ہمارے وزیراعظم اپنی والدہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے اپنے پڑاؤ کے آخری دن ان سے ملاقات کرتے ہیں۔


پردھان سیوک صاحب کی اپنے والدہ سے ملاقات کو سب سے زیادہ دلچسپ تو ہمارے قومی میڈیا کے نیوز اینکروں نے بنا دیا۔ کئی نیوزاینکرس نے تو ملاقات کی تصویریں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئرکرکے ایسے والہانہ کیپشن تحریر فرمائے ہیں کہ اگر انہیں ان کی والدائیں پڑھ لیں توشکایت کرنے لگیں کہ کمبخت مجھ سے ملتے ہوئے تمہاری وارافتگی کہاں چلی جاتی ہیں؟ انہیں کیپشن کو پڑھ کرشاید کچھ لوگوں نے اس کے نیچے یہ جملہ تحریر فرما دیا کہ اگر اتنی ہی لائم لائٹ میں ملاقات کا موقع ملے تو وہ ہر کسی کی والدہ کا پیر پکڑنے اوراس کے ساتھ چائے پینے کے لیے تیار ہیں۔

یہ پوری کیفیت اس بات کی غماز ہے کہ گجرات میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ گھبراہٹ ہے اور یہ گھبراہٹ اب صاف طور پر محسوس بھی ہونے لگی ہے۔ ہماچل پردیش کے بارے میں تو یہ بات یقین طور پر کہی جا رہی ہے کہ وہاں پر کانگریس کا پرچم لہرانے والا ہے۔ یوں بھی ہماچل کی روایت ہر پانچ سال بعد اقتدار کی تبدیلی کی رہی ہے۔ دہلی ایم سی ڈی کے نتائج کے بارے میں یہی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ 15؍ سال تک اقتدار میں رہنے والے کمل کی پتیاں بکھر جائیں گی۔ البتہ گجرات کے بارے میں کوئی بات ابھی تک یقینی طور پر نہیں کہی جا رہی ہے کہ وہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اسی بے یقینی کی وجہ سے بی جے پی اوٹ پٹانگ حرکتوں پر مجبور ہوئی ہے۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔