حالیہ چناؤ: ہماچل پردیش امید کی ایک کرن... ظفر آغا

حالیہ اسمبلی او رمیونسپل چناؤ کے جو نتائج آئے ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مودی ابھی بھی ملک کے اہم لیڈر ہیں۔ لیکن ایک بہت بڑا طبقہ بی جے پی کا نعم البدل بھی ڈھونڈ رہا ہے

جیت کا جشن مناتے کانگریس کارکنان / آئی اے این ایس
جیت کا جشن مناتے کانگریس کارکنان / آئی اے این ایس
user

ظفر آغا

دو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور ایک ریاست میں میونسپل کارپوریشن انتخاب کے نتائج گزشتہ ہفتے آ گئے۔ گجرات میں حسب دستور بی جے پی کو شاندار جیت حاصل ہوئی۔ وہاں حکمراں جماعت نے ساتویں بار متواتر صوبائی چناؤ جیت کر ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ ساتھ ہی بی جے پی نے 150 سے بھی زیادہ سیٹیں جیت کر سب سے زیادہ حلقے جیتنے کا بھی ریکارڈ قائم کیا۔ ادھر ہماچل پردیش اسمبلی انتخاب نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کیا اور اس ہفتے کانگریس کی ایک صوبائی حکومت قائم ہو جائے گی۔ دہلی میں بلدیاتی چناؤ میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو ہرا دیا۔ اس طرح دہلی میں اسمبلی اور دہلی میونسپل کارپوریشن دونوں جگہ پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ ہو گیا۔ یعنی تین ریاستوں میں الگ الگ پارٹیوں کو فتح ملی۔ لیکن ان چناوی نتائج کے سیاسی معنی کیا ہیں اور ملک کس سیاسی سمت میں جا رہا ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس نکتہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو واضح ہے کہ آج بھی ملک میں ہندوتوا سیاست کی لہر ہے اور نریندر مودی اب بھی ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہلی کے میونسپل چناؤ سے لے کر گجرات اور ہماچل اسمبلی چناؤ تک بی جے پی نے اس بار نریندر مودی کے نام پر ہی ووٹ مانگے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ خود وزیر اعظم نے عوامی ریلیوں میں لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔

بس اسی بات میں مضمر ہے ملک کا سیاسی رجحان۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گجرات میں بی جے پی نے ہر قسم کے ریکارڈ توڑ کر تاریخ رقم کی اور یہ جیت بی جے پی کی جیت نہیں بلکہ وزیر اعظم کی جیت ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ گجرات کا وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے گجراتی ووٹر کو نریندر مودی پر ناز ہے اور وہ ہر حالت میں نریندر مودی کے ہاتھ مضبوط کرنے کو راضی ہے۔ گجرات میں ووٹنگ تناسب گھٹا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کو بی جے پی حکومت سے ناامیدی ہے لیکن نریندر مودی سے ان کو اب بھی امید ہے۔ یوں تو گجرات میں کانگریس پارٹی کی سیٹیں پچھلی بار سے اس بار کافی کم ہوئیں۔ پچھلی اسمبلی میں کانگریس کے 60 ممبر تھے، جبکہ اس بار اس کے 17 ممبر ہی ہیں۔ لیکن اب بھی کانگریس کا گجرات میں ووٹ شیئر تقریباً 27 فیصد ہے۔ یعنی ہر تیسرا ووٹر کانگریس کو اب بھی ووٹ ڈال رہا ہے، اور یہ بی جے پی کے لیے خطرناک بات ہے۔ کانگریس کی گجرات میں سیٹیں کم ہونے کا بنیادی سبب وہاں عام آدمی پارٹی تھی۔ عام آدمی پارٹی کو لگ بھگ 13 فیصد ووٹ ملے ہیں جو مبصرین کی رائے میں کانگریس کا ووٹ ہیں۔ یعنی کیجریوال سیاسی سطح پر بی جے پی کی بی ٹیم ثابت ہو رہے ہیں اور ملک میں آر ایس ایس کا ’کانگریس مکت بھارت‘ ایجنڈا کامیاب بنانے میں اہم کردار نبھا رہے ہیں۔


لیکن ہماچل پردیش میں کانگریس کی شاندار جیت سیاسی اعتبار سے معنی خیز ہے۔ یوں تو ہماچل میں عرصے سے ایک بار بی جے پی اور دوسری بار کانگریس کی سرکار کا رواج چلا آ رہا ہے، لیکن اس بار ہماچل میں عام آدمی پارٹی ایک حکومت کے نعم البدل کے طور پر داخل ہوئی تھی۔ یعنی ہماچل میں کانگریس پارٹی کو دو اہم پارٹیوں کا سامنا تھا۔ پھر ہماچل میں مودی جی کھل کر ’میرے ہاتھ مضبوط کیجیے‘ کی اپیل کر رہے تھے۔ اس کے بعد بھی ووٹرس نے کانگریس کو اکثریت بخشی۔ یعنی ہماچل میں نہ تو مودی چلے اور نہ ہی کیجریوال کا جادو چلا۔ یہ جیت اس حال میں ہوئی کہ اس بار ہماچل میں سونیا گاندھی یا راہل گاندھی انتخابی تشہیر کے لیے نہیں گئے۔ ہاں، پرینکا گاندھی نے ہماچل میں جم کر کام کیا اور پارٹی کو جتانے کا کام کیا۔ مگر بنیادی طور پر کانگریس نے چناوی مینجمنٹ لوکل لیڈران پر ہی چھوڑ دیا۔ اور یہ حکمت عملی کارگر رہی۔ یعنی کانگریس کو اب لوکل لیڈرشپ پر نہ صرف بھروسہ کرنا ہوگا بلکہ اس کو ہر طرح سے مضبوط کر چناؤ کی بنیادی ذمہ داری بھی لوکل لیڈرشپ کے ہاتھوں میں دینی ہوگی۔ راہل گاندھی یہ بات عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب کانگریس اسی حکمت عملی پر مستعدی سے عمل کرے۔

لیکن دہلی میونسپل چناوی نتائج کانگریس ہی نہیںبلکہ ملک کی سیکولر سیاست کے لیے خطرناک اشارے کر رہے ہیں۔ وہاں کیجریوال کا جادو چلا اور عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو پندرہ سال بعد اقتدار سے باہر کر دیا۔ اب یہ کھلی بات ہے کہ اگر مودی ’ہارڈ ہندوتوا‘ کی سیاست کرتے ہیں تو کیجریوال ’سافٹ ہندوتوا‘ یعنی مسلم مخالف سیاست کرتے ہیں۔ تب ہی تو شاہین باغ کی سی اے اے تحریک اور دہلی میں ہونے والے فساد کے معاملے میں کیجریوال چپ بیٹھے رہے۔ پھر بھی عام آدمی پارٹی دہلی میں چناؤ جیت گئی۔ یعنی کم از کم ہندیبولنے والی ریاستوں میں اب بھی ہندوتوا کا زور ہے۔ اور یہاں پر کیجریوال نہ صرف کانگریس کو کمزور کر رہے ہیں بلکہ مودی اور بی جے پی کے نعم البدل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔


یہ بات ملک کی سیکولر سیاست اور خصوصاً مسلم ووٹر کے لیے خطرناک ہے۔ دہلی کے مسلم ووٹر کو کیجریوال کی خطرناک سیاست کا اندازہ ہو گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اوکھلا اور فساد سے متاثر جمنا پار کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم ووٹرس نے عام آدمی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس پارٹی کو ووٹ ڈالا۔ ان علاقوں میں مسلم ووٹرس کی حمایت کے سبب ہی کانگریس کو دہلی میونسپل چناؤ میں کچھ سیٹیں مل گئیں۔ یہ سمجھداری کی حکمت عملی تھی، اور ملک کے دوسرے حصوں میں جہاں بھی کیجریوال چناؤ لڑتے ہیں، وہاں اسی حکمت عملی پر عمل ہونا چاہیے۔

حالیہ اسمبلی او رمیونسپل چناؤ کے جو نتائج آئے ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مودی ابھی بھی ملک کے اہم لیڈر ہیں۔ لیکن ایک بہت بڑا طبقہ بی جے پی کا نعم البدل بھی ڈھونڈ رہا ہے۔ تب ہی تو تین جگہوں پر ایک جیسے نتائج نہیں آئے۔ بلکہ ہر جگہ الگ الگ پارٹی کو کامیابی ملی۔ کانگریس کو ہماچل کی کامیابی سے سبق لے کر اگلے برس کرناٹک، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہونے والے صوبائی چناؤ کے لیے ابھی سے کمر کس لینی چاہیے۔ سیاسی حالات سیکولر سیاست کے لیے بہت سازگار نہیں ہیں، لیکن ہماچل کی طرح مختلف اور نئی حکمت عملی سے ہندوتوا سیاست کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Dec 2022, 11:11 AM