ہریانہ: سرکاری ملازمین کا پرانی پنشن کے لیے بضد ہونا کھٹر حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی!

اولڈ پنشن اسکیم پر ملازمین کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس کے لیے وہ سڑک پر اتر آئے ہیں، ملازمین نے متنبہ کیا ہے کہ ہریانہ حکومت او پی ایس نافذ کرے ورنہ ووٹ کی چوٹ برداشت کرنے کے لیے تیار رہے۔

منوہر لال کھٹر/ تصویر آئی اے این ایس
منوہر لال کھٹر/ تصویر آئی اے این ایس
user

دھیریندر اوستھی

اولڈ پنشن اسکیم (او پی ایس) کا ایشو ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت کے گلے کی پھانس بن گیا ہے۔ ’او پی ایس نافذ کرنے سے ملک دیوالیہ ہو جائے گا‘ جیسے بیان دے کر خود وزیر اعلیٰ نے اس موضوع کو سیاسی بحث کے مرکز میں لا دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے راجستھان کے بھی او پی ایس کا فیصلہ واپس لینے والا بیان دے دیا جو جھوٹا ثابت ہو گیا۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے خط لکھ کر کہا ہے کہ راجستھان نے تو اسے نافذ کر ہی دیا، اب ہریانہ بھی اسے نافذ کرے۔ او پی ایس کا مطالبہ کر رہے ایمپلائی آرگنائزیشن کو اس سے مزید طاقت مل گئی ہے۔ ملازمین نے کہا ہے کہ حکومت او پی ایس نہیں دے گی تو اسے انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

اولڈ پنشن اسکیم پر ملازمین کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے لیے وہ سڑک پر اتر آئے ہیں۔ ملازمین نے متنبہ کیا ہے کہ ہریانہ حکومت او پی ایس نافذ کرے، ورنہ ووٹ کی چوٹ برداشت کرنے کے لیے تیار رہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ کھٹر نے بیان بازی کر مشکلات کو مزید بڑھانے کا کام کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کسی افسر کے حوالے سے بیان دیا ہے کہ او پی ایس نافذ ہونے سے 2030 تک ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ بغیر پارلیمنٹ کے کوئی اسے نافذ نہیں کر سکتا۔ راجستھان نے بھی اسے واپس لے لیا ہے۔ اسی بیان سے بات مزید بگڑ گئی۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اس بیان کو غلط ثابت کرتے ہوئے ہریانہ کو بھی اسے نافذ کرنے کی نصیحت دے دی ہے۔ گہلوت نے کھٹر کو کھلا خط لکھ کر کہا ہے کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا بیان درست نہیں ہے۔ راجستھان میں یکم اپریل 2022 سے اولڈ پنشن اسکیم نافذ کر دی گئی ہے۔ 2004 کے بعد سروس میں آ کر ریٹائر ہوئے 621 ملازمین کو او پی ایس کا فائدہ دیا جا چکا ہے اور آگے بھی سبھی ملازمین کو اولڈ پنشن اسکیم کا فائدہ دیا جائے گا۔ آئین کے ساتویں شیڈیول میں ریاستی فہرست کا پوائنٹ نمبر 42 واضح طور پر کہتا ہے کہ اسٹیٹ پنشن جو ریاست کے کنسولیڈیٹیڈ فنڈ سے دیا جائے گا۔ اس پر ریاستی حکومت کو قانون بنانے کا اختیار ہے۔ ایسے میں آپ کا یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ اولڈ پنشن اسکیم مرکزی حکومت کے ذریعہ ہی دی جا سکتی ہے۔ میں آپ سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ اخلاقی نظریہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہریانہ میں بھی اولڈ پنشن اسکیم نافذ کریں اور مرکزی حکومت کو بھی اس کے لیے اپنی سفارش بھیجیں۔


گہلوت نے کھٹر کے بیان کو غلط ثابت کرتے ہوئے آئینی حالات کو بھی واضح کر ہریانہ حکومت کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ریاست میں حالات ایسے ہیں کہ پرانی پنشن اسکیم بحالی کے لیے ریاست بھر میں ملازمین سڑک پر ہیں۔ ساتھ میں ملازمین نے اپنے دوسرے ایشوز کو بھی دھار دینے کا کام کیا ہے۔ او پی ایس کے ساتھ ٹھیکے پر بھرتی کے لیے بنائے گئے ’ہریانہ کوشل روزگار نگم‘ کو بھی تحلیل کرنے کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملازمین ضلع ہیڈکوارٹرس اور منی سکریٹریٹس میں مظاہرہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے فیصلے سرکاری ملازمین کی کمر توڑ دیں گے۔ مظاہروں میں ہر محکمہ کے ملازمین شامل ہیں۔ روڈ ویز ملازمین نے اعلان کر دیا ہے کہ 20 فروری سے ہریانہ اسمبلی کے شروع ہونے جا رہے بجٹ اجلاس سے پہلے وہ سڑکوں پر اتریں گے۔ سبھی ڈرائیور اور کنڈکٹر اپنے اپنے ڈیپو پر اولڈ پنشن اسکیم کے مطالبہ کو لے کر دھرنا دیں گے۔ 14 فروری سے ریاست گیر تحریک شروع کریں گے۔ ہریانہ روڈ ویز ورکرس یونین کے جنرل سکریٹری سربت پونیا کا کہنا ہے کہ ملازمین کو یکجا کرنے کے لیے مہم شروع ہو چکی ہے۔ 7 فروری کو ریاست کے بجلی ملازمین نے بھی دو گھنٹے کا علامتی مظاہرہ کر حکومت کو متنبہ کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر چنڈی گڑھ کوچ کیا جائے گا۔ ہریانہ ایمپلائی فیڈریشن کے بینر تلے بھی حکومت کو 25 اپریل تک مطالبہ پورا کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ ملازمین نے کہا ہے کہ حکومت اگر ان کے مطالبات پورے نہیں کرتی، تو ہر مہینے تحریک کریں گے اور حکومت کو جھکائیں گے۔ 25 اپریل تک اگر حکومت نہیں مانتی ہے تو اس کے بعد ووٹ کی چوٹ سے مارنے کے لیے بڑی تحریک شروع کی جائے گی۔ ہماچل ان ملازمین کے لیے ایک نظیر بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو ہریانہ میں بی جے پی کی حالت ہماچل جیسی ہو جائے گی۔ انتخاب میں بی جے پی کا کوئی امیدوار دوسرے نمبر پر بھی نہیں آئے گا۔

آل انڈیا اسٹیٹ گورنمنٹ ایمپلائز فیڈریشن کے قومی سربراہ سبھاش لامبا کا کہنا ہے کہ حکومت اگر ان کا مطالبہ نہیں مانتی ہے تو 14 مارچ کو وہ دہلی میں پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کریں گے۔ اپریل، مئی اور جون میں پورے ملک میں سبھی بلاک اور اضلاع میں ملازمین کی میٹنگیں کی جائیں گی۔ حکومت اگر پھر بھی نہیں مانتی ہے تو جولائی میں پورے ملک سے ملازمین کی گاڑیوں کا جتھہ دہلی کی طرف کوچ کرے گا۔ گاڑیوں کے یہ جتھے سبھی شہروں اور قصبوں میں جلسہ عام کرتے ہوئے ستمبر میں دہلی پہنچیں گے۔ وہاں عظیم الشان ریلی کی جائے گی۔ ریلی مین حکومت کے خلاف نتیجہ خیز ملک گیر تحریک کا اعلان کیا جائے گا۔ تحریک میں بینک، بیمہ، ریلوے، ڈیفنس اور پی ایس یو کے ملازمین کو بھی شامل کرنے اور عوام سے بھی پبلک سروسز کو بچانے کے لیے حمایت حاصل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں گی۔ لامبا کا کہنا ہے کہ نام نہاد ماہرین معیشت جو او پی ایس دینے پر ملک کے دیوالیہ ہو جانے کی بات کرتے ہیں، وہ صنعت کاروں کے لاکھوں کروڑ روپے معاف کر دینے پر کیوں اپنی زبان نہیں کھولتے۔ کارپوریٹ ٹیکس کم کر دینے پر کیوں نہیں بولتے۔ لامبا سوال کھڑا کرتے ہیں کہ اگر حکومت ملازمین کو پرانی پنشن نہیں دے سکتی تو ایم ایل اے اور ایم پی پرانی پنشن کیوں لے رہے ہیں؟ یہ سبھی ایم پی اور ایم ایل اے پرانی پنشن کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2023 جدوجہد بھرا سال رہے گا۔ نتیجہ خیز تحریک چلانے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ملازمین متحد ہو گئے ہیں۔ حکومت مختلف محکموں میں کام کرنے والے آؤٹ سورس، ٹھیکہ اور دِہاڑی ملازمین کو مستقل کرنے کی پالیسی بنانے کی جگہ نوجوانوں کو تاعمر ٹھیکے پر ہی رکھنے کے لیے راستہ ہموار کر رہی ہے۔ جہاں ان کو نہ تو یکساں کام کے لیے یکساں تنخواہ دی جا رہی ہے، اور نہ ہی کوئی سروس سیکورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */