ہم اڈانی کے ہیں کون: ’بغیر کسی بولی کے اڈانی گروپ کو فروخت کیے گئے بندرگاہ‘، کانگریس نے مرکز سے پھر پوچھے تین سوال

جئے رام رمیش نے کہا کہ ہوائی اڈوں کی طرح آپ کی حکومت نے بندرگاہ سیکٹر میں بھی اڈانی گروپ کی بالادستی قائم کرنے کے لیے سبھی وسائل کا استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی۔

کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش
کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش
user

قومی آوازبیورو

ہنڈن برگ رپورٹ میں اڈانی گروپ کو لے کر ہوئے انکشافات پر سبھی اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت سے سوال پوچھ رہی ہیں۔ کانگریس اس معاملے پر پارلیمنٹ سے لے رک سڑک تک بی جے پی اور پی ایم مودی پر حملہ آور ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش ہر دن سوشل میڈیا کے ذریعہ پی ایم مودی اور ان کی حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں۔ اس کے لیے کانگریس پارٹی نے ایک خاص سیریز شروع کیا ہے جس کا نام ہے ’ہم اڈانی کے ہیں کون؟‘ اسی سیریز کے تحت ہفتہ کے روز بھی کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے پی ایم مودی سے تین سوال پوچھے۔

جئے رام رمیش نے ہفتہ کے روز اپنے ٹوئٹ میں تین سوال پوچھے جانے سے پہلے لکھا ’’پی ایم مودی جی، جیسا ہم نے وعدہ کیا تھا، ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کے تحت سوالوں کا یہ ساتواں سیٹ ہے۔ یہ بندرگاہ سیکٹر میں اڈانی گروپ کے تیزی سے بڑھتی بالادستی سے متعلق ہیں۔‘‘ پھر انھوں نے پی ایم مودی سے تین سوال پوچھے جو اس طرح ہیں:

پہلا سوال:

اڈانی گروپ آج 13 بندرگاہوں اور ٹرمینل کو کنٹرول کرتا ہے جو ہندوستان کی بندرگاہوں کی صلاحیت کے 30 فیصد اور کل کنٹینر مقدار کے 40 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پارٹی نے ڈاٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سال 2014 کے بعد سے اس ترقی کی راہ میں تیزی آئی ہے۔ گجرات میں مندرا بندرگاہ کے علاوہ 2015 میں دھامرا پورٹ اڈیشہ، 2018 میں کٹوپلی پورٹ تمل ناڈو، 2020 میں کرشناپٹنم پورٹ آندھرا پردیش، 2021 میں گنگاورم پورٹ آندھرا پردیش، اور 2021 میں دگھی پورٹ مہاراشٹر پر بھی کنٹرول کر لیا۔


یہاں ایک واضح پالیسی کام کر رہی ہے: گجرات، آندھرا پردیش اور اڈیشہ ہندوستان کے ’غیر اہم بندرگاہوں‘ سے غیر ملکی کارگو ٹرانسپورٹ کا 93 فیصد حصہ ہیں۔ کرشناپٹنم اور گنگاورم جنوب میں سب سے بڑے پرائیویٹ بندرگاہ ہیں۔ اس کے بعد اڈانی گروپ نے 2025 تک اپنی بازار حصہ داری کو 40 فیصد تک بڑھانے کے اپنے ہدف کا اعلان بھی کیا ہے کہ مزید بندرگاہوں کا حصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کیا آپ اپنے پسندیدہ کاروباری گروپ کے ذریعہ ہر اہم نجی بندرگاہ کے حصول کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں، یا کیا دیگر پرائیویٹ فرموں کے لیے کوئی جگہ ہے جو سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں؟ کیا یہ ایک قومی سیکورٹی کے نظریہ سے دانشمندانہ قدم ہے کہ ایک ایسی فرم کو، جس پر آفشور شیل کمپنیوں کے ذریعہ منی لانڈرنگ اور راؤنڈ ٹریپنگ کے سنگین الزامات ہیں، کو بندرگاہ جیسے اسٹریٹجک سیکٹر پر حاوی ہونے کی اجازت دی جائے؟

دوسرا سوال:

ہوائی اڈوں کی طرح آپ کی حکومت نے بندرگاہ سیکٹر میں بھی اڈانی گروپ کی بالادستی قائم کرنے کے لیے سبھی وسائل کا استعمال کر کے سہولت فراہم کی۔ سرکاری رعایتوں والے بندرگاہوں کو بغیر کسی بولی کے اڈانی گروپ کو فروخت کر دیا گیا ہے، اور جہاں بولی لگانے کی اجازت دی گئی ہے، وہاں سرمایہ کار حیرت انگیز طور سے بولی لگانے سے غائب رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انکم ٹیکس چھاپے نے کرشناپٹنم پورٹ کے پچھلے مالک کو اڈانی گروپ کو فروخت کرنے کے لیے ’منانے‘ میں مدد کی ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ 2021 میں پبلک سیکٹر کا جواہر لال نہرو پورٹ ٹرسٹ بھی اڈانی کے ساتھ مہاراشٹر میں دگھی پورٹ کے لیے بولی لگا رہا تھا، لیکن شپنگ اور وزارت مالیات کے ذریعہ بولی کی حمایت کرنے سے انکار کرنے کے بعد ٹرسٹ کو اپنی بولی واپس لینے کے لیے مجبور ہونا پڑا؟


تیسرا سوال:

عام طور پر ہر ایک بندرگاہ کے لیے جوکھم اور ملکیت کے تحفظ کے لیے اسپیشل پرپس گاڑیوں کے ساتھ رعایتوں پر بات چیت کی جاتی ہے۔ پھر بھی ان میں سے کئی بندرگاہ اب ایک سنگل فہرست بند یونٹ، اڈانی پورٹس اور ایس ای زیڈ کا حصہ ہیں۔ کیا ملکیتوں کی یہ منتقلی بندرگاہوں کے لیے ماڈل رعایت سمجھوتے کی خلاف ورزی کر کی گئی ہے؟ کیا اڈانی کے کاروباری مفادات کے لیے رعایتی سمجھوتوں کو بدلا گیا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔