گجرات اسمبلی الیکشن: خوف ہے اور نظر بھی آرہا ہے!... اعظم شہاب

بی جے پی کی طرح عام آدمی پارٹی بھی ہندوتوا کی سڑک پر آنکھ بند کرکے بھاگی جا رہی ہے، جس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ گجرات کا سیکولر ووٹر ایک بار پھر کانگریس کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔

گجرات اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
گجرات اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

جادو کے سرچڑھ کر بولنے کی طرح خوف بھی اب کھل کر نظر آنے لگا ہے۔ جی ہاں! ملک ہی نہیں دنیا کی سب سے طاقتور اور مالدار پارٹی کہلوانے والی بی جے پی بری طرح خوفزدہ ہے۔ اس کی یہ خوفزدگی گجرات الیکشن کے تناظر میں تو نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ 25سالہ حکمرانی والی اس کی یہ ریاست اب اس کے ہاتھوں سے پھسل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری ومہنگائی سے صاف منکر ہماری مرکزی حکومت اب روزگار میلوں کا انعقاد کرنے لگی ہے۔ ملکی معیشت کو ترقی کی جانب رواں دواں قرار دینے والے ہمارے پردھان سیوک صاحب اب اس کے مشکل دور سے گزرنے کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ بلقیس بانو مجرمین کی رہائی کے نام پر پولرائزیشن کی امید باندھنے کے باوجود ایودھیا میں جاکر رام نام کا شرن لے نا پڑ رہا ہے اور آر ایس ایس سربراہان کو مسجد اور درگاہوں میں حاضری لگانی پڑ رہی ہے۔ یہ تمام تضادات وایکسرسائز اس بات کے ثبوت ہیں کہ گجرات ہارنے کا خوف نہ صرف پردھان سیوک اور وزیر داخلہ بلکہ پوری بی جے پی کے اعصاب پر مکمل طور پرسوار ہوچکا ہے؟

گجرات ہمارے پردھان سیوک اور وزیر داخلہ صاحب کی جنم بھومی بھی ہے اور کرم بھومی بھی۔ اپنے اس جنم کرم بھومی پر اپنی ممکنہ شکست کو روکنے کے لیے خاص جتن کئے جا رہے ہیں۔ پردھان سیوک اوروزیر داخلہ صاحب ہر ہفتے گجرات کے چکر لگا رہے ہیں۔ دیوالی کے موسم میں لوگ باگ پٹاخے وپھلجھڑی چھوڑنے میں مصروف ہیں مگر پردھان سیوک صاحب گجرات میں وعدوں کی پھلجھڑی چھوڑ رہے ہیں۔ یہی وہ گجرات ہے جس کے ترقیاتی ماڈل سے ایک زمانے میں وہ پورے ملک کو’من مونگدھ‘ کر دیا کرتے تھے، مگر اب حالت یہ ہے کہ وہ اس ماڈل کا ذکر بھی بھول چکے ہیں۔ اگر واقعی گجرات میں اتنی ہی ترقی ہوئی جتنی کہ بی جے پی اور اس کا آئی ٹی سیل بتاتا ہے تو پھر اس قدر محنت کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ البتہ گجرات ماڈل کے نام پر اتنا  ضرور ہوا ہے کہ پورے ملک میں یہ سب سے زیادہ مقروض بن گئی ہے اور اس کا سہرا بلاشبہ ہمارے پردھان سیوک کے ہی سرجاتا ہے جو دہلی میں گجرات کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ گجرات کی پڑوسی ریاست مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کی حکمرانی والی حکومت ہے اور وہ مہاراشٹر کے حصے کے ترقیاتی پروجیکٹ گجرات منتقل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی، وگر نہ گجرات کا شمار بھی یوپی وبہار کے ہی زمرے میں ہوتا۔


اس بار کے الیکشن میں کہا جاتا ہے مقابلہ سہ رخی ہے، اور اتفاق دیکھئے کہ بی جے پی بھی اب اس کو تسلیم کرنے لگی ہے۔ اسے ایسا لگ رہا ہے کہ کیجریوال اس کے لیے بڑا چیلنج کھڑا کرسکتے ہیں اور کیجریوال کو امید ہے کہ پنجاب کی طرح گجرات میں بھی ’چمتکار‘ ہوگا۔ بی جے پی کی پوری توجہ اپنے ووٹ بینک کو سمیٹنے پر ہے تو کیجریوال اپنی توانائی اس ووٹ بینک میں سیندھ لگانے میں صرف کر رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے عام آدمی پارٹی کے اسکولوں کے ماڈل کا گجرات میں بھی ڈنکا بجانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ 19/اکتوبر کو گجرات دورے کے دوران پردھان سیوک نے مشن اسکول آف ایکسیلنسی کا افتتاح کیا۔ لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ یہ مشن ایکسیلنسی کے بجائے مشن اداکاری واسٹیج بن گیا۔ سنا گیا ہے کہ پردھان سیوک صاحب جس اسکول کے کلاس روم میں 5 بچوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھے نظر آئے وہ اسکول ہی جعلی تھا اور افتتاح کے بعد وہ اسکول ہی غائب ہوگیا۔ یہ بالکل اسی طرح کا ہے کہ جیسے کسی فلم اسٹوڈیو میں شوٹنگ کے لیے کوئی اسٹیج بنایا جائے۔ گویا یہ مشن اسکول آف ایکسیلنسی بھی ایک اداکاری ہی تھا۔ یوں بھی آج کی سیاست ہی فنِ اداکاری میں تبدیل ہوچکی ہے، اس لیے اس پر کوئی حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے۔

کیجریوال کو معلوم نہیں کیوں ایک سیکولر لیڈر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ جبکہ وہ بھی بی جے پی کی طرح ہندوتوا کی سیاست کو ہی اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ پردھان سیوک کی طرح کیجریوال صاحب کا بھی گجرات کا کوئی دورہ کسی مندر میں حاضری اور ہنومان چالیسہ کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔ اپنے آپ کو ہندوتوا نواز ثابت کرنے کے لیے کیجریوال عملی طور پر بھی اس کامظاہرہ کر رہے ہیں۔ دہلی میں ان کے کارپوریٹر طاہر حسین پر صرف فساد میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور یہ الزام بھی دہلی پولیس کی جانب تھا۔ لیکن کیجریوال صاحب نے اسے اپنی پارٹی سے نکال دیا۔ انہیں معلوم تھا کہ طاہر حسین پر یہ الزامات پولیس کی جانب سے عائد ہوئے ہیں اور ان الزامات کے ثبوت میں صرف یہ بات پیش کی گئی تھی کہ ان کے چھت پر پتھر ملے تھے۔ بلقیس بانوکے مجرمین کی رہائی کے خلاف ہرکسی نے صدائے احتجاج بلند کی۔ لیکن کیجریوال صاحب کی زبان سے اس تعلق سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ہندو نواز ثابت کرنے میں مصروف ہیں اس لیے انہیں خوف ہے کہ اگر انہوں نے بلقیس بانو کے مجرمین کے خلاف کچھ کہا تو ہندو ووٹر ان سے ناراض ہو جائیں گے۔


1974 میں ایک فلم آئی تھی روٹی کپڑا اور مکان۔ اس فلم میں ایک نغمہ تھا ’ارے ہائے ہائے یہ مجبوری، یہ موسم اور یہ دوری‘۔ کیجریوال کی حالت دیکھ کر تھوڑی ترمیم کے ساتھ یہ نغمہ کچھ یوں ہوجاتا ہے کہ ’ارے ہائے ہائے یہ مجبوری، یہ کرسی اور یہ دوری‘۔ کیجریوال صاحب گجرات میں جیت حاصل کرنے کے لیے ہندوتوا کی سڑک پر آنکھ بند کرکے بھاگے جا رہے ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اگر وہ اس سڑک پر ذرا بھی لڑکھڑائے تو پنجاب ہی نہیں دہلی میں بھی ان کی مٹی پلید ہوجائے گی۔ لیکن ان کے گجرات آنے کے بعد صورت حال میں دلچسپ تبدیلی بھی آگئی ہے۔ ان کی اور بی جے پی کی آپسی لڑائی نے کانگریس کی راہ کو آسان بنا دیا ہے۔ ایسے میں اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ  عام آدمی پارٹی و بی جے پی آپس میں ہی دست وگریبانی میں کانگریس بازی مارلے۔ یوں بھی گزشتہ الیکشن میں گولی کنپٹی کو چھوکر گزرگئی تھی۔ کانگریس نے اپنی سیٹوں میں 16/کا اضافہ کرتے ہوئے 77سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ بی جے پی 16/سیٹوں کے نقصان کے ساتھ 99 پر رک گئی تھی۔ بی جے پی نے اگر 49فیصد ووٹ حاصل کیا تھا تو کانگریس بھی 41 فیصد سے آگے بڑھ گئی تھی۔ اس لیے بی جے پی کی پالیسی یہ ہے کہ اگر اس نے گزشتہ اعداد ہی حاصل کرلے تو سانس بچ جائے گی۔ جس کے لیے پردھان سیوک سے لے کر وزیر داخلہ کی پوری تان عام آدمی پارٹی پر ہی ٹوٹ رہی ہے۔

اس پورے منظرنامے میں خوف کی جو ایک بڑی وجہ ہے کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا بھی ہے۔ اس یاترا سے قبل صورت حال یہ تھی کہ کانگریس اور راہل گاندھی ہی مودی ومرکزی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار تھے، لیکن اب ملک کے عوام سڑکوں پر اترنے لگی ہے۔ وہ مفاہمت پسند لوگ جو مودی حکومت و بی جے پی کے خلاف خاموش رہنے کو ترجیح دیتے تھے، اب وہ بھی اعلانیہ اس کی مخالفت کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ جو لو گ یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت جوڑو یاترا کا اثر گجرات الیکشن پر نہیں ہوگا، انہیں یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ یہ بھات جوڑو یاترا کا ہی اثر ہے مودی سرکار اب ملازمتیں دینے کی بات کرنے لگی ہے۔ مودی سرکار کا روزگار میلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت جوڑو یاترا نے نوجوانوں کے بارے میں مودی سرکار کو سوچنے پر مجبور کرد یا ہے۔ یہ بھارت جوڑو یاترا کا ہی اثر ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ مسجدوں میں جاکر اماموں سے ملاقات کرنے لگے ہیں، درگاہوں میں حاضری لگانے لگے ہیں اور مہنگائی، بیروزگاری اور عدم مساوات پر بات کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی بھارت جوڑو یاترا کا ہی اثر ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپئے کی کم ہوتی قدر پر وزیرخزانہ بولنے پر مجبور ہوئیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے پاس کچھ بولنے کے لیے نہیں تھا۔ اگر گجرات میں کچھ اونچ نیچ ہو جاتا ہے تو یقین جانیے اس کا براہِ راست 2024 پر پڑے گا۔ اس لئے بی جے پی کے یہاں خوف ہے اور یہ خوف نظر بھی آنے لگا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔