کہانی اقتدار کی مضبوطی اور قوتِ برداشت کی!...اعظم شہاب

وزیر نے بادشاہ کو اقتدار کی مضبوطی کا یہ نسخہ تو بتایا کہ لوگوں کی قوتِ برداشت میں اضافہ کیا جائے لیکن یہ نہیں بتایا کہ قوتِ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جس کی شروعات 7 ستمبرکو کنیاکماری سے ہو چکی

بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی
بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی
user

اعظم شہاب

راوی عرض کرتا ہے کہ ارضئ خوابستان میں ایک بادشاہ نے دورانِ چہل قدمی نے اپنے وزیر خاص سے پائیداریئ اقتدارکے رازِ سربستہ دریافت فرمالیا۔ وزیرنے عرض کیا کہ حضور اقتدار کی پائیداری کے یوں توبہت سے نسخے ہیں لیکن ان تمام میں سب سے مجرب نسخہ عوام کی قوتِ برداشت میں اضافہ کاہے۔ اگر آپ اپنی رعایا کی قوتِ برداشت بڑھادیں تو یہ اقتدار کے پائیداری کا ضامن بن جائے گا۔ بادشاہ نے غصے میں اپنے وزیر کی جانب دیکھا اور کہا کیا تم مجھے بیوقوف سمجھتے ہو؟ تم اگر یہ کہو کہ رعایا کو نت نئے خواب دکھائے جائیں، ان سے جھوٹے وعدے کئے جائیں، انہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کیا جائے اور انہیں کچھ مراعات دیا جائے تو اس سے اقتدار مستحکم ہوسکتا ہے، لیکن تم تو رعایات کی قوتِ برداشت کوبڑھانے کی بات کررہے ہو، یہ کون سی منطق ہے؟کیا تم سیاسی بصیرت سے بالکل ہی عاری ہوچکے ہو؟

وزیرنے کہا کہ حضور قصور معاف! اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ ثابت کرسکتا ہوں۔بادشاہ نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ اگر تم اپنے دعوے میں ناکام ہوئے تو اپنے عہدے سے خودکو معزول سمجھنا، کیونکہ مجھے سیاسی بصیرت سے محروم لوگوں کی قطعی ضرورت نہیں۔ وزیر نے کہا کہ حضور مجھے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ جب میں اپناکام شروع کردوں تو مجھے نہ روکا جائے گا اور نہ ہی کوئی وضاحت طلب کی جائے گی۔مجھے ایک معینہ مدت دی جائے اور اس دوران مجھے آزادی حاصل ہوکہ میں جس طرح چاہوں، مملکت کا انتظام کروں۔ بادشاہ نے کہا منظور ہے لیکن ناکامی کی صورت میں معزولی کے شرط کو نہ بھولنا۔ وزیر نے اسی دن ایک اعلان کروایا کہ شہر کو دوحصوں میں تبدیل کرنے والی ندی کے واحد پل کا استعمال جوابھی تک مفت ہوا کرتا تھا، اس کے لیے اب 5؍اشرفی ادا کرنے ہونگے۔


یہ اعلان سنتے ہی عوام میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ ابھی تک تو یہ مفت تھا، آخر ایسی کیا وجہ آن پڑی کہ اس کے لیے5؍اشرفی لیے جانے کا اعلان کیا جارہا ہے؟ پھر لوگوں نے یہ کہتے ہوئے اشرفی اداکرنا منظور کرلیا کہ ابھی تک مفت ہی سفر کرتے رہے، اب اگر5؍اشرفی دینے پڑرہے ہیں تو اس میں بھی کوئی حکمت ہی ہوگی۔ حکومت ہماری سہولیات کے لیے ہی یہ رقم خرچ کرے گی، لہٰذا دوسرے روز سے حکومت کی جھولی میں فی کس5؍اشرفی جمع ہونے لگی۔ ایک ماہ بعد پھر اعلان کیا گیا کہ ابھی تک جو 5؍اشرفی لی جارہی تھی،وہ اب بڑھا کر10؍اشرفی کی جارہی ہے۔ لوگوں نے پھر کچھ ردوقدح کے بعد اسے بھی قبول کرلیا۔ تیسرے ماہ یہ 10، پھر چوتھے ماہ20؍اشرفی فی کس کردی گئی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ پل کا استعمال کرنے والوں کو 20؍اشرفی کے ساتھ ہی دوجوتے بھی مارے جائیں گے۔

یہ اعلان سنتے ہی پورے شہر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ کہا جانے لگا کہ پہلے مفت تھا، تو ہم نے 5؍اشرفی دینا منظور کیا، پھر 10؍اشرفی ہوئی تو بھی ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ پھر 15؍اور 20؍اشرفی ہوگئی تو بھی ہم خاموش رہے۔ لیکن اب تو حد ہی ہوگئی کہ اس کے ساتھ دو جوتے بھی مارے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ہنگامے کی خبر جب بادشاہ کو پہنچی تو اس نے فوری طور پر اپنے وزیرخاص کو طلب کیا اور اس کی وجہ دریافت کی۔ وزیر نے بادشاہ کو اپنا شرط یادلایا اوربادشاہ خاموش ہورہا۔ دوسرے روز بادشاہ اپنے محل سے کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑا ہجوم اس کے محل میں گھساچلا آرہا ہے۔بادشاہ کے اوسان خطا ہوگئے کہ ہو نہ ہو یہ لوگ میرے اقتدار کے خاتمے کے لیے آرہے ہیں۔ اس نے پھر اپنے وزیر کو طلب کیا۔ وزیرنے انہیں مطمئن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہجوم کے پاس گیا۔ ہجوم نے کہا کہ وہ بادشاہ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ وزیرنے کہا کہ سب کا بادشاہ سے ملنا مناسب نہیں ہوگا، لہذا آپ لوگ اپنے 5 لوگوں کا ایک وفد بنائیں۔یہ وفد ایک زیرک شخص کی سربراہی میں بادشاہ سے ملنے پہونچا۔


بادشاہ نے ان کے آنے کی وجہ دریافت کی تو وفد کے ایک شخص نے کہا کہ حضور! ہم پل کا مفت استعمال کرتے تھے اورپھر ہم سے 5؍اشرفی لی جانے لگی۔ دوسرا آگے بڑھا اور بولا کہ ہمیں 5؍اشرفی دینے میں کوئی قباحت نہیں تھی کہ10؍اشرفی طلب کی جانے لگی۔ تیسرنے کہا کہ ہم 10؍اشرفی بھی دے رہے تھے کہ15؍اشرفی کردی گئی۔ چوتھے نے کہا کہ15؍اشرفی بھی ہم دے رہے تھے کہ 20؍اشرفی کردی گئی اور ساتھ ہی دو جوتے کھانے کا حکم دیدیا گیا۔ وفد کا سربراہ آگے بڑھا کہ حضور! ہم 20؍اشرفی دینے اور جوتے کھانے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ جوتے مارنے کے لیے ایک ہی سمت میں آدمی مقرر ہیں، جس کی وجہ سے طویل قطار لگ جاتی ہے اور ہمارا وقت جوضائع ہوتا ہے سو الگ۔ ہماری آپ سے بس ایک ہی گزارش ہے کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جائے اور انہیں دونوں سمت تعینات کردیا جائے تاکہ قطار نہ لگے اور ہمارا وقت بچ سکے۔ بادشاہ نے اپنی حیرت پر قابوپاتے ہوئے وزیراعظم کی سمت دیکھا۔ وزیراعظم نے فاتحانہ انداز میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا ’نمونمو‘۔

اقتدار کی مضبوطی کے لیے قوتِ برداشت میں اضافے کا یہ سلسلہ ہمارے یہاں گزشتہ ۸ سالوں سے جاری ہے۔ اس کے لیے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا۔ بینکوں کے سامنے لوگوں کی طویل طویل قطاریں لگ گئیں، سیکڑوں لوگوں کی جانیں چلی گئیں، لیکن چونکہ بلیک منی پر قدغن لگانا تھا، اس لیے سبھی نے اسے ہنسی خوشی قبول کرلیا۔ جی ایس ٹی عائد کی گئی جس کی وجہ سے اوسط وچھوٹے طبقے کے کاروبار مکمل طور پر تباہ ہوگئے، لیکن کوئی اف تک نہیں کیا کیونکہ بادشاہ نے ملک کی ترقی کے لیے جی ایس ٹی کو ضروری قراردیدیا تھا۔ کورونا کا بحران آیا تو لوگوں سے تالیاں وتھالیاں بجوائی گئیں اور لوگوں نے خوشی خوشی بجائیں بھی کیونکہ یہ اس بادشاہ کا حکم تھا جو ملک کو ہندوراشٹر بناناچاہتا تھا۔ ملک کی سیکڑوں کلومیٹر کی زمین پر چین نے قبضہ کرلیا، عوام میں کوئی بے چینی نہیں ہوئی کیونکہ بادشاہ نے اعلان کردیا تھا کہ نہ کوئی ہماری زمین پر آیا ہے اور نہ ہی کسی نے ہماری کسی چوکی پر قبضہ کیا ہے۔مہنگائی وبیروزگاری نے گزشتہ 45سالوں کے ریکارڈ توڑدیئے،لیکن کسی نے اف تک نہیں کیا کیونکہ بادشاہ نے اعلان کردیا کہ ہم ملک کو ۵ٹریلین ڈالر کی ایکنامی بناناچاہتے ہیں۔ ایندھن کی قیمتوں میں 150؍فیصد سے زائد اضافہ ہوگیا لیکن کوئی بے چینی نظر نہیں آئی کیونکہ ندی کے دوسرے کنارے کی طرف رہنے والوں کو بادشاہ سبق سکھارہا ہے۔


گلوبل ہینگرس انڈیکس میں ملک کا 94ویں مقام سے پھسل کر 107؍ویں مقام پر پہنچ گیا، لیکن چونکہ بادشاہ نے اچھے دنوں کا وعدہ کررکھا تھا، اس لیے اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ روپئے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کے سب سے نچلے سطح پر پہنچ جاتی ہے، مگر کسی جانب کوئی بے چینی نظر نہیں آتی ہے کیونکہ اسی دوران وزیرخزانہ کا یہ منطق سامنے آگیا کہ روپیہ کمزور نہیں بلکہ ڈالر مضبوط ہوا ہے۔ لیکن ان تمام قواعد کے ساتھ اپنے اقتدرا کی مضبوطی کے لیے بادشاہ نے اپنا ایک آزمودہ نسخہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ جو لوگ قوتِ برداشت میں اضافے کی بادشاہ کی اس کوشش کے خلاف آواز اٹھارہے تھے، انہیں اس نے ملک دشمن ثابت کرنا شروع کردیا۔ اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ بادشاہ نے خود کو ہی ملک قراردیدیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ کبھی دبے لفظوں میں بادشاہ کی غلط پالیسوں وفیصلوں کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، بادشاہ کے حواری انہیں ملک دشمن ثابت کرنے پر مامور ہوگئے۔ قوتِ برداشت میں اضافے کے نسخے کا فائدہ یہ ہوا کہ بادشاہ کو من مانا فیصلہ کرنے لگا اور مخالف میں اٹھنے والی ہرآواز ملک دشمن قرارپانے لگی۔ لیکن وزیرنے قوتِ برداشت کا یہ نسخہ بادشاہ بتاتے ہوئے یہ بتانابھول گیا تھا کہ ہرشئے کی ایک حد ہوتی ہے اور قوتِ برداشت بھی ایک دن اپنے حد کو پہونچ جائے گی۔بتایاجارہا ہے کہ عوام کے قوتِ برداشت کے حد کی شروعات ۷ستمبرکو کنیاکماری سے ہوچلی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */