کانگریس میں نئے دور کا آغاز... سہیل انجم

سونیا اور راہل گاندھی نے یہ فیصلہ کرکے کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی شخص پارٹی صدارت کا الیکشن نہیں لڑے گا ایک مثال تو قائم کی ہی، بی جے پی کے ہاتھوں سے پریوار واد کے الزام کا ہتھیار چھین لیا۔

ملکارجن کھڑگے / Getty Images
ملکارجن کھڑگے / Getty Images
user

سہیل انجم

کانگریس پارٹی نے بالآخر اپنی سیاسی حریف بی جے پی کے ہاتھوں سے ایک خطرناک ہتھیار چھین کر اسے بے دست و پا کر دیا۔ یہ ہتھیار تھا یہ پروپیگنڈہ کہ کانگریس ایک خاندانی پارٹی ہے۔ اس میں نہرو گاندھی خاندان کی ہی چلتی ہے۔ بی جے پی بار بار کانگریس پر یہ الزام عاید کرتی رہی ہے۔ کبھی سونیا گاندھی کے صدر بننے پر تو کبھی راہل گاندھی کے صدر بننے پر۔ یہاں تک کہ جب راہل گاندھی نے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تب بھی یہی کہا جاتا رہا کہ وہ پھر صدر بن جائیں گے۔ جب انھوں نے بھار ت جوڑو یاترا شروع کی تو اس وقت بھی یہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ یاترا اس لیے شروع کی گئی ہے تاکہ راہل کو ایک بار پھر پارٹی کا صدر بنا دیا جائے۔ لیکن اب جبکہ 24 برس کے بعد پارٹی کی باگ ڈور گاندھی خاندان کے باہر چلی گئی ہے تو بی جے پی کے لیڈروں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ حالانکہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ لہٰذا جب ملکارجن کھڑگے کو صدارتی امیدوار بنایا گیا تو الزام عاید کیا جانے لگا کہ وہ سونیا گاندھی کے درپردہ امیدوار ہیں۔ لیکن جب کھڑگے اور ان کے حریف ششی تھرور نے اعلان کیا کہ گاندھی خاندان اس الیکشن میں غیر جانبدار ہے تب کہیں جا کر بی جے پی لیڈروں کے منہ پر تالا لگا۔

سونیا اور راہل گاندھی نے یہ فیصلہ کرکے کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی شخص پارٹی صدارت کا الیکشن نہیں لڑے گا ایک مثال تو قائم کی ہی، بی جے پی کے ہاتھوں سے پریوار واد کے الزام کا ہتھیار چھین لیا۔ جہاں تک پریوار واد کے الزام کا تعلق ہے تو بی جے پی خود اس سے اچھوتی نہیں ہے۔ اس میں بے شمار ایسے لیڈران موجود ہیں جن کے باپ دادا بھی سیاست میں تھے اور جن کی اولادیں بھی سیاست میں ہیں۔ لیکن وہ لوگ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے یا آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھتے۔ کیونکہ یہ چہرہ بڑا کریہہ ہے۔ اتنا کریہہ کہ ان کے اندر اسے دیکھنے کی تاب نہیں ہے۔


کانگریس اور بی جے پی میں کئی بنیادی فرق ہے۔ کانگریس 137 سال پرانی تاریخی پارٹی ہے اور ملک کی آزادی میں اس کا بڑا کردار رہا ہے۔ وہ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک حکمراں رہی ہے۔ جمہوریت، سیکولرزم اور سوشلزم اس کی پالیسی کی بنیاد ہے۔ جب کہ بی جے پی کی تاریح چند دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس کی کوئی قابل ذکر تاریخ نہیں ہے۔ اس کی سیاست کی بنیاد سیکولرزم مخالفت اور جمہوریت دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ کانگریس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں بیلٹ پیپر سے صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ بی جے پی اور دیگر پارٹیوں میں انتخاب ہوتا ہی نہیں۔ بی جے پی صدر وہی بنتا ہے جس کی منظوری ناگپور سے ملتی ہے۔ جس کی پشت پر آر ایس ایس کا ہاتھ نہیں وہ صدر نہیں بن سکتا۔

موجودہ انتخاب نہ صرف کانگریس پارٹی کا بلکہ ملک کی سیاست کا بھی ایک اہم واقعہ ہے۔ اب جبکہ جنوب مغربی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والے زمینی سطح سے اوپر اٹھ کر آنے والے ایک اور دلت رہنما ملکارجن کھڑگے کو پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے تو اسے کانگریس کے ایک نئے دور سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ 80 سالہ بزرگ سیاست داں کانگریس کے 98 ویں صدر ہیں۔ انھوں نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے پہلے ردعمل میں کہا کہ ہمیں فسطائی قوتوں سے لڑنا ہے۔ ہمیں ان طاقتوں سے لڑنا ہے جو جمہوریت کا نام تو لیتی ہیں لیکن اسی پر حملہ کرتی ہیں۔ ان کا اشارہ واضح طور پر حکمراں جماعت بی جے پی کی طرف تھا۔


کھڑگے پارٹی کے دوسرے دلت صدر ہیں۔ پہلے دلت صدر بابو جگجیون رام تھے جنہیں 71-1970میں صدر منتخب کیا گیا تھا۔ کھڑگے بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ وہ ایک سنجیدہ، سلجھے ہوئے اور غیر متنازع سیاست داں سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 21 جولائی 1942 کو کرناٹک کے ضلع بیدر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا بچپن اپنے آبائی گاؤں وروتّی ضلع بیدر میں انتہائی تنگ دستی میں گزرا۔ اس وقت وہ علاقہ نظام حیدرآباد کے زیر حکومت تھا۔ وہ سات سال کے تھے کہ اس وقت وہاں فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں ان کی والدہ اور خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے نے ان لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور ان کا خاندان گلبرگہ میں جا کر بس گیا۔ اس شہر کو اب کلبرگی کہا جاتا ہے۔

انہوں نے گلبرگہ کے سیٹھ شنکر لال لاہوتی کالج سے قانون کی پڑھائی کی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ انھوں نے اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں حصہ لیا اور اس کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بہت قلیل مدت تک وکالت کی۔ پھر 1969 میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہیں اسی سال گلبرگہ شہر کی کانگریس شاخ کا صدر بنا دیا گیا۔ انہوں نے 1972 میں کرناٹک اسمبلی کے لیے پہلا الیکشن لڑا جس میں وہ کامیاب رہے۔ اس کے بعد سے لے کر2008 تک وہ مسلسل آٹھ بار ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ اس دوران وہ کرناٹک حکومت میں کئی بار وزیر بنائے گئے۔ انہیں 2005 میں کرناٹک کانگریس کا صدر نامزد کیا گیا۔


وہ 2009 میں قومی سیاست میں آگئے۔ اس سال کے پارلیمانی انتخابات میں کرناٹک کے گلبرگہ حلقے سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی مرکزی حکومت میں ریلوے وزیر بنائے گئے۔ بعد میں انہیں سماجی انصاف اور ایمپاورمنٹ کا وزیر بنایا گیا۔ اس کے بعد 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی جب کہ بی جے پی کو زبردست عوامی حمایت حاصل تھی، انہوں نے گلبرگہ سے ہی دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے بی جے پی کے امیدوار کو 13 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ تاہم 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں وہ بی جے پی امیدوار سے شکست کھا گئے۔

انہیں فروری 2021 میں راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیا گیا۔ وہ 16 فروری 2021 سے لے کر یکم اکتوبر 2022 تک ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف رہے۔ قبل ازیں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں 2014 سے 2019 کے درمیان کانگریس پارٹی کے قائد رہے۔ انہیں شروع سے ہی گاندھی خاندان کا وفادار سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ تین بار 1999، 2004 اور 2013 میں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوئے۔ ان مواقع پر انہیں ایس ایم کرشنا، دھرم سنگھ اور سدھا رمیا سے شکست کھانی پڑی تھی۔ ایس ایم کرشنا بعد میں وزیر خارجہ بنائے گئے تھے۔ کھڑگے کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے پریانک کھڑگے بھی سیاست میں ہیں اور کرناٹک کے کلبرگی ضلعے کے چتّاپور اسمبلی حلقے سے دوسری بار منتخب ہوئے ہیں۔


کھڑگے کانگریس کے صدر تو منتخب ہو گئے مگر ان کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج پارٹی میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرکے اس میں دوبارہ نئی جان ڈالنا ہے۔ کیا وہ پارٹی کو درپیش مسائل سے نکالنے اور بی جے پی کے مقابلے میں ایک سیاسی طاقت کے طور پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکارجن کھڑگے ایک سینئر اور تجربہ کار سیاست داں ہیں۔ وہ اگر چہ گاندھی خاندان کے وفادار ہیں لیکن ان کے اندر آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ ششی تھرور کے مقابلے میں ان کے انتخاب کو پارٹی کی کمزوری کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے انتخاب سے پارٹی کو استحکام حاصل ہوگا۔ بالخصوص جنوبی ہند میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔

وہ ایک دلت سیاست داں ہیں اور دلت سیاست کو پارٹی میں ایک بڑا چہرہ ملا ہے۔ انہیں پہلے بھی پارٹی میں اہم عہدے ملتے رہے ہیں۔ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ جنوب میں پارٹی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور خاص طور پر دلتوں کو پارٹی کے قریب لا سکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق پارٹی کی قیادت کا برہمن سیاست دانوں سے ہاتھ سے نکل کر دلت سیاست داں کے پاس پہنچ جانا موجودہ سیاسی تناظر میں اہم پیش رفت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس جیسی پارٹی کے لیے عمر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت تجربے کی ہے اور کھڑگے تھرور کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار ہیں۔ وہ اگرچہ 80 برس کے ہیں لیکن آج بھی سیاست میں سرگرم ہیں اور جسمانی طور پر فٹ ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں کانگریس کا زبردست دفاع کیا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پارٹی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔