کیا ہیٹ اسپیچ بی جے پی کی روحانی غذا ہے؟...سہیل انجم

پرویش ورما نے اپنی تقریر میں وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ ان لوگوں کا (مسلمانوں کا) واحد علاج یہی ہے کہ ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ آپ لوگ ان سے کوئی سامان نہ خریدیں اور انھیں مزدوری بھی نہ دیں۔

تصویر بشکریہ این ڈی ٹی وی
تصویر بشکریہ این ڈی ٹی وی
user

سہیل انجم

کچھ لوگ اکثر و بیشتر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہیٹ اسپیچ یعنی نفرت انگیز تقاریر بی جے پی کے لیے ضروری شئی بن گئی ہے۔ وہ یہ سوال اس لیے کرتے ہیں کہ بی جے پی کے بعض رہنماؤں سمیت ہندوتواوادی عناصر کی جانب سے خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں اور بیانوں کو بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور خود حکومت کے ذمہ داران ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں۔ اور چونکہ ان کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اس لیے پولیس کا محکمہ یہ سمجھتا ہے اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب بھی ہے کہ ان کو حکومت کی حمایت حاصل ہے اور پھر یہی وجہ ہے کہ پولیس بھی ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہے۔

ابھی چند روز قبل دہلی میں ایک نام نہاد ”وراٹ ہندو سبھا“ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مغربی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ ان لوگوں کا (مسلمانوں کا) واحد علاج یہی ہے کہ ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ آپ لوگ ان سے کوئی سامان نہ خریدیں اور انھیں مزدوری بھی نہ دیں۔ یعنی اگر ان سے کوئی کام کرائیں تو انھیں کوئی معاوضہ نہ دیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے شرکا کو اس کا حلف بھی دلوایا اور انھوں نے ہاتھ اٹھا کر ان کی اپیل کی تائید کی۔


ان کے علاوہ کئی اور لیڈروں نے تقریریں کی جن میں کئی ہندو مذہبی رہنما شامل ہیں۔ ایک مذہبی رہنما نے ہندوؤں سے کہا کہ وہ ہتھیار رکھیں۔ ہتھیاروں کے لائسنس لیں اور لائسنس نہ ملے تو بغیر لائسنس کے ہتھیار رکھیں۔ اس بارے میں ان کی دلیل یہ تھی کہ جو لوگ تمھیں مارنے آتے ہیں کیا ان کے ہتھیار لائسنسی ہوتے ہیں۔ گویا انھوں نے شرکا کو غیر قانونی کام کرنے کی ترغیب دی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی ہمارے مندروں کی طرف انگلی اٹھائے تو اس کی انگلی نہ توڑیں بلکہ ہاتھ توڑ دیں اور ضرورت پڑے تو اس کا گلا بھی کاٹ دیں۔ بقول ان کے اس کی سزا کیا ہوگی بہت ہوگا پھانسی ہو جائے گی۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی تقریباً ایسی ہی اشتعال انگیزی کی۔

(ان تقریروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ اس ملک میں ہندوؤں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے اور ظلم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ ان کی جانب یہ اپیل کی گئی کہ ہندو متحد ہو جائیں اور اگر وہ متحد نہیں ہوں گے تو انھیں اسی طرح مارا جاتا رہے گا ان کو بچانے کوئی نہیں آئے گا۔ حالانکہ یہ بالکل الٹی بات ہے۔ کون ظلم کر رہا ہے اور کون مظلوم ہے یہ پوری دنیا جانتی ہے۔)


بعد میں پرویش ورما نے کہا کہ انھوں نے کسی مذہبی طبقے کا نام نہیں لیا تھا بلکہ انھوں نے جہادیوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔ ایک دوسرے مقرر نے بھی کہا کہ وہ جہادیوں کو مارنے کی بات کر رہے تھے۔ یوپی کے غازی آباد کے لونی اسمبلی حلقے سے بی جے پی کے ممبر نند کشور گوجر نے تو سال 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے واہے مسلم کش فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کر لیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب تشدد ہوا تو ہم ہزاروں لوگوں کو لے کر آگئے تھے۔ ہم نے جہادیوں کو مارا اور آگے بھی ماریں گے۔ خیال رہے کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ہندتواوادی تنظیموں کے لوگ ہر اس مسلمان کو جہادی کہتے ہی جو اپنی دینی شناخت کے ساتھ زندہ رہنے کو ترجیح دے اور جو اسلام کے قوانین کے مطابق زندگی گزارے۔ البتہ جو مسلمان آر ایس ایس کے نظریات کو مانیں وہ جہادی نہیں ہیں۔

دراصل شمال مشرقی دہلی کے علاقے نند نگری میں ایک غیر مسلم نوجوان کا بعض مسلمانوں نے قتل کر دیا۔ اس سلسلے میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ پرانی رنجش کا معاملہ ہے۔ خود مقتول کے اہل خانہ کے بیانات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے ان لوگوں میں دشمنی چلی آرہی تھی۔ وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں کی جانب سے اس قتل کے خلاف مذکورہ ریلی منعقد کی گئی تھی اور اسی میں اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں۔ لیکن پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اس نے وشو ہندو پریشد کے خلاف پروگرام کے انعقاد کے لیے اجازت نہ لینے کی وجہ سے رپورٹ درج کی ہے لیکن جو اشتعال انگیزی کی گئی اور جو نفرت انگیز تقریریں کی گئیں اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔


اب میڈیا ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے پرویش ورما کو نوٹس جاری کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اس کی وضاحت کریں کہ انھوں نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کیوں کی۔ پرویش ورما اس سے انکار کرتے ہیں کہ انھیں کوئی نوٹس ملا ہے۔ بہرحال اگر نوٹس دیا گیا ہے تو اسے عام کیا جانا چاہیے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت پرویش ورما کے بیانات سے مطمئن نہیں ہے تو وہ بیان جاری کرکے سرعام ان کی مذمت کرے اور دوسرے لیڈروں کو انتباہ دے کہ آئندہ وہ ایسی تقریر نہ کریں۔ اگر کریں گے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کسی خفیہ خط کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

خیال رہے کہ بی جے پی ترجمان نپور شرما کے متنازع اور اشتعال انگیز بیان کے بعد خلیجی ملکوں سے شدید احتجاج کیا گیا تھا اور تقریباً بیس ملکوں نے اس بیان کی مذمت کی تھی۔ کئی ملکوں نے ہندوستان سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔ اس کے بعد ہندوستان کے سامنے سفارتی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے بعد نپور کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا۔ ان کے خلاف پانچ ریاستوں میں ایف آئی آر درج ہوئی لیکن آج تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے۔ جبکہ ان کے بیان کی مذمت میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور کئی مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان کے مکانات بھی منہدم کر دیئے گئے۔ دوسری ریاستوں کی پولیس نے نپور شرما کو گرفتار کرنے کے لیے جب دہلی کا دورہ کیا تو دہلی کی پولیس نے اس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا اور دوسری ریاستوں کی پولیس کو بیرنگ واپس جانا پڑا۔


اس سے قبل ہریدوار، دہلی اور دوسرے مقامات پر بھی دھرم سنسدوں کا انعقاد کرکے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو ورغلایا گیا۔ ہریدوار کی دھرم سنسد میں تو مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی۔ لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ جب بہت زیادہ احتجاج ہوا تب جا کر پولیس نے یتی نرسنگھانند کو گرفتار کیا لیکن ان کو ضمانت مل گئی ہے اور وہ اب جیل سے باہر ہیں اور مسلمانوں کے خلاف مزید اشتعال انگیزی کرکے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لیکن نہ تو حکومت ان سے کوئی سوال کر رہی ہے نہ پولیس اور نہ ہی عدالت۔

ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے لوگوں کا یہ سوال کرنا بجا ہے کہ کیا اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی بی جے پی کے لیے کھاد کا کام کرتی ہے یا پھر اس سے بھی آگے ہیٹ اسپیچ اس کے لیے ایک روحانی غذا ہے۔ جب تک اسے یہ غذا نہیں مل جاتی اس کو چین و سکون نہیں ملتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ الزام درست ہے۔ کیونکہ جب سے مرکز میں موجودہ حکومت قائم ہوئی ہے مسلمانوں، دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ اور ان پر حملوں میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے لیکن حکومت قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے مظلومین کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔