ملائم سنگھ یادو کو تاریخ نہیں بھلا پائے گی...ظفر آغا

ملائم اور لالو کا کمال یہ ہے کہ تقریباً تین دہائیوں تک اپنے اپنے صوبوں میں ہی نہیں بلکہ کافی حد تک مرکز میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ کے ہندو راشٹر ایجنڈے کو روکے رکھا

ملائم سنگھ یادو کی فائل تصویر / Getty Images
ملائم سنگھ یادو کی فائل تصویر / Getty Images
user

ظفر آغا

ملائم سنگھ یادو نہیں رہے، اور ان کے ساتھ سیاست کا ایک دور بھی ختم ہو گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دور وہ تھا جس نے اتر پردیش ہی نہیں بلکہ سارے ملک کی سیاست کو ایک بالکل نیا رخ دے دیا۔ یوں تو اس دور کے بنیادی معمار وی پی سنگھ اور ان کی منڈل سیاست تھی، لیکن سنہ 1990 میں وی پی سنگھ نے جس طرح منڈل سفارشات کو لاگو کر پسماندہ ذاتوں کو جو سرکاری نوکریوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں جو 27 فیصد ریزرویشن دیا بس اس نے ملک کی سیاست کا رخ ایسا بدلا کہ پھر آج تک اس کا مزاج بدلا ہی ہوا ہے۔ سنہ 1989 کے لوک سبھا اور ریاستی چناؤ میں مرکز میں وی پی سنگھ اور اتر پردیش اور بہار میں ملائم سنگھ یادو اور لالو پرساد یادو برسراقتدار آئے۔

وی پی سنگھ کے ہاتھوں سے تو اقتدار گیارہ مہینوں میں نکل گیا، لیکن انھوں نے جس منڈل سیاست کی داغ بیل رکھی تھی وہ ان کے بعد ملائم اور لالو کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ ان دونوں صوبائی قد آور لیڈران نے جس طرح منڈل سیاست کا استعمال کیا، بس اس نے ملک کی سیاست ایسی بدلی کہ اس کے بعد سے آج تک بدلی ہی ہوئی ہے۔ یوپی اور بہار میں سنہ 1947 سے چلی آ رہی کانگریس کا ستارہ سیاست سے جو غروب ہوا تو ان دنوں میں کانگریس پارٹی آج تک پنپ نہیں سکی۔ یوپی اور بہار سیاسی اعتبار سے اس قدر اہم صوبے ہیں کہ وہاں کانگریس کے کمزور ہونے سے مرکز کی سیاست میں بھی کمزوری آئی اور جلد ہی مرکز میں اتحادی سیاست کا رواج ہو گیا۔ سنہ 2014 تک اسی وجہ سے مرکز میں اتحادی حکومتیں ہی برسراقتدار ہیں۔ اقتدار کی کمان کبھی بی جے پی تو کبھی کانگریس کے ہاتھوں میں رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرکز میں ایک لایقینی صورت حال برقرار رہی۔


لیکن منڈل سیاست نے ملک کی سیاست میں جو سب سے بڑی تبدیلی پیدا کی، وہ سماجی اور ہندو مذہب کی سطح پر تھی۔ ملائم اور لالو نے منڈل کے بعد جس طرح مسلمانوں اور کبھی کبھی دلتوں کا جو ایک سماجی و سیاسی اتحاد بنایا اس نے صدیوں پرانی چلی آ رہی منو کے اصولوں پر قائم ہندو سماج کی ذاتی بنیاد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ملائم اور لالو کی قیادت میں صرف پسماندہ ذاتوں کا اقتدار میں ہی عروج نہیں ہوا، بلکہ اب سماجی سطح پر بھی ان کی حیثیت میں تبدیلی پیدا ہوئی جس سے منووادی ذاتی بنیاد چرمرا اٹھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ منوواد پر قائم مذہبی عقائد اور رسم و رواج بھی خطرے میں پڑ گئے۔ کمال تو یہ ہے کہ ملائم، لالو اور کسی حد تک مایاوتی نے اس منڈل سیاست کا فائدہ اٹھا کر لگ بھگ تیس سالوں تک بی جے پی کو بھی ان صوبوں سے اقتدار سے باہر رکھا اور سماجی سطح پر بھی پسماندہ ذاتوں کا پرچم بلند رکھا۔

ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کے منووادی نظام پر جو اثرات ہوئے، ان کا رد عمل ہونا بھی تھا اور وہ بھی جلد ہی ہوا۔ سنہ 1990 ہی میں منڈل سیاست کے جواب میں آر ایس ایس نے بی جے پی کے پرچم تلے کمنڈل سیاست شروع کی۔ یعنی مختلف ہندو ذاتیں جو منڈل کی سیاست کے بنا آپس میں بٹ گئی تھیں، ان کو ’ہندو دھرم خطرے میں ہے‘ کی سیاست کی آڑ میں دھرم کی سیاست شروع کی جو کمنڈل سیاست کہلائی۔ ظاہر ہے کہ ملک میں ہندو کو خطرہ مسلمان سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے اور آر ایس ایس نے وہی کیا۔ سنہ 1986 میں ایودھیا کی بابری مسجد کا تالا جو کھلا تھا اس کو سنگھ اور بی جے پی کے ملک میں مسجد-مندر کا تضاد بنا کر ملک میں ہندو-مسلم تکرار کی صورت حال پیدا کر دی جس میں وہ دھیرے دھیرے کامیاب ہوتے چلے گئے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ ملک نریندر مودی کی قیادت میں ہندو راشٹر کی کگار پر ہے۔


لیکن ملائم اور لالو کا کمال یہ ہے کہ تقریباً تین دہائیوں تک اپنے اپنے صوبوں میں ہی نہیں بلکہ کافی حد تک مرکز میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ کے ہندو راشٹر ایجنڈے کو روکے رکھا۔ ملائم و لالو کا اس سے زیادہ اہم تعاون یہ رہا کہ ان دونوں نے ہندو سماج میں صدیوں سے چلی آ رہی ذاتی نظام کی بہت حد تک کمر توڑ دی۔ اسی اعتبار سے بہت سے مبصرین نے منڈل سیاست کو ایک ’سماجی انقلاب‘ کہا۔ ادھر بی جے پی نے جس طرح کمنڈل نے سیاست کے ذریعہ اس سیاست کو روک کر پرانے منوادی نظام میں پھر سے سانس پھونک دی۔ اس کے سبب بی جے پی سیاست کو اکثر ’کاؤنٹر انقلاب‘ کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں سماجی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ یعنی ہندو سماج میں صدیوں پرانی ذاتی نظام کو آج نہیں تو کل بدلنا ہی ہوگا۔ وہ تبدیلی کب ہو یہ تو تاریخ ہی طے کرے گی۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں یہ تبدیلی بہت جلد ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ لیکن یوپی میں جب یہ سیاسی اور سماجی انقلاب جب بھی ہو اس وقت ملائم اس انقلاب کے ہیرو پھر ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔