فرقہ پرستوں کی فصل کو کھاد پانی ملنا بند!... نواب علی اختر

حکومت اچھی طرح واقف ہے کہ گزشتہ سال تبلیغی جماعت سے متعلق کیے گئے ’نامناسب‘ فیصلوں سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

کووڈ-19 ایک متعدی بیماری ہے جس کا سبب ایک نیا کورونا وائرس ہے جس کی سب سے پہلے نشاندہی دسمبر 2019 میں چین کے ووہان میں ہوئی تھی۔ کورونا وائرس ایسے وائرس کا کنبہ ہے جو نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ کووڈ-19 کی روک تھام کے لیے اب تک کئی ویکسین تیار ہوچکی ہیں جس کے ذریعہ عالمگیر وباء کو کنٹرول کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مگر ہندوستان جسے دنیا کے تقریباً سب سے بڑے جمہوری ملک کا درجہ حاصل ہے، یہاں وبا پر کنٹرول سے زیادہ بیماری کے نام پر لوگوں میں نفرت پھیلانے کی کوششیں کی گئیں اور اس میں برسراقتدار پارٹی کے حامی اور ان کے مرید کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے مگر اب دھیرے دھیرے وہ تمام سازشیں بے نقاب ہو رہی ہیں جس میں ایک خاص طبقہ کے خلاف رچی گئی تھیں۔

ہندوستان میں تقریباً ایک سال قبل ایک ایسا وقت بھی آیا جب عالمی وبا کے نام پر نفرت، خاص فعقہ کو نشانہ بنانے، دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے اور خوف کا ماحول بنانے جیسے واقعات کا سیلاب آگیا۔ حالانکہ حال ہی میں جب ہریدوار میں منعقدہ کمبھ میلے کے بعد کورونا نے قہر برپا کیا تو تنگ نظر لوگوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملی، کیونکہ کورونا وائرس کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مسلمان ہیں یا ہندو، کہاں رہتے ہیں اور کس پر یقین رکھتے ہیں۔


ملک میں اس عالمی وبا کی وجہ سے نفرت اور دہشت پھیلانے کے معاملات بڑھے ہیں۔ انٹرنیٹ سے لے کر سڑکوں تک ایسے معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں بڑھی ہیں، اس کے ساتھ ہی مسلم مخالف حملے بھی تیز ہوئے ہیں۔ صحت عامہ کے پچھلے بحرانوں کے دوران، وباء یا بیماری کے شکار لوگوں اور ان کے خاندانوں کو اکثر امتیازی سلوک اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان میں وباء کو فرقہ پرست طاقتوں نے اقلیتوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا اور اس طرح وطن عزیزمیں 70سال میں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورایک دوسرے کے درمیان بلا لحاظ مذہب وملت تعلقات مضبوط کرنے کو فروغ دیا گیا، اسے مٹھی بھر فرقہ پرستوں نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت نفرت میں بدل دیا۔

فرقہ پرستوں کی سازش کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پڑوسی غیر بن گئے، دوست دشمن ہو گئے، سماجی تانے بانے ٹوٹنے لگے یہاں تک کہ مذہب کے نام پرایک دوسرے کو مارنے کاٹنے پر آمادہ نظر آئے۔ اس عالمی وبا کے دوران جہاں بہت سارے نقصانات اور منفی پہلو سامنے آئے، وہیں ایک سے زیادہ مثبت پہلو بھی دیکھنے کو ملے جنہوں نے انسانیت کا سر بلند رکھتے ہوئے نفرت کی دیوار کو منہدم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


کورونا وباء کی وجہ سے عام لوگوں کو تو جھٹکا لگا ہی ہے، وہیں فرقہ پرست طاقتوں کے منصوبے بھی تباہ ہو گئے ہیں۔ فرقہ پرستوں کے گروہ نے گزشتہ 6 برسوں میں نفرت کی جو دیوار کھڑی کی تھی اس دیوار کو ڈھانے میں بھی کووڈ نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ایک فرقہ کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں کے دکھ درد میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کی حتی المقدور مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس طرح کووڈ نے نام نہاد راشٹر بھکتوں کے ذریعہ کھودی گئی نفرت کی کھائی کو بھی پاٹنے کاکام کیا ہے۔ جہاں کووڈ کی وجہ سے 70 سالوں کی محنتیں ضائع ہو رہی ہیں وہیں فرقہ پرستوں کی 6 سال کی سازشیں بھی ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اب وقت ایسا آگیا ہے جب گزشتہ 6 سالوں کے دوران فرقہ پرستوں کے ذریعہ لگائی گئی نفرت کی فصل کو کھاد پانی بھی ملنا بند ہوگیا ہے۔

آج ملک کے مختلف حصوں سے تقریباً ہر روز خبریں آرہی ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مسلم تنظیمیں اور نوجوان بلا لحاظ مذہب کورونا کے شکار لوگوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔ یہ متوفی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے اپنے بھی آخری سفر میں ہمسفر بننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں، لیکن ہمارے نوجوان مختلف عقائد کے لوگوں کی ان کے پورے مذہبی رسم ورواج کے ساتھ آخری رسومات ادا کرنا اپنا فرض منصبی سمجھ رہے ہیں۔ اسپتال سے لے کر شمشان گھاٹ / قبرستان تک تمام رسومات ادا کی جاتی ہیں اور مکمل عزت واحترام کے ساتھ لاشوں کو سپرد خاک /نذرآتش کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کا یہی کردار ملک کے استحکام کی بنیاد ہے۔ ان سب کے درمیان یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں پوری طرح ہارچکی ہیں کیونکہ جہاں بھی انسانیت نواز پائے جائیں گے وہاں فرقہ پرستوں کو شکست کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔


یہ حکومتوں کے لئے بھی ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ ملک کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی بچانے کے لئے اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اس طرح کے فیصلے کرتے وقت فرقہ وارانہ ذہنیت کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے کیونکہ متعصبانہ ذہنیت سے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ نفرت اور تقسیم کا ماحول تیار کرتا ہے جو ہندوستان جیسے ملک کے لئے کسی بھی طرح صحیح نہیں ہوگا۔ حکومت اچھی طرح واقف ہے کہ گزشتہ سال تبلیغی جماعت سے متعلق کیے گئے ’نامناسب‘ فیصلوں سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ وبا پر قابو پانے کے لئے ملک کا ہرشہری حکومت کے ساتھ ہے کیونکہ اجتماعی کوششوں سے ہی اس موذی مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

کورونا وبا کے دوران انسانی حقوق کے عالمی قانون کے تحت حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اظہار کی آزادی بشمول سرحدوں سے قطع نظر، ہر قسم کی معلومات کی جستجو، حصول اور ترسیل کے حق کی حفاظت کریں۔ عوام کی صحت کی خاطر، مناسب پابندیاں اس حق کو متاثر نہیں کرتیں۔ حکومتیں حق صحت سمیت انسانی حقوق کے تحفظ و فروغ کے لیے ضروری معلومات دینے کی پابند ہیں۔ سماج میں صحت کے بنیادی مسائل سے متعلق معاملات کی تعلیم و معلومات کی فراہمی بشمول وہ معلومات جو ان مسائل کی روک تھام و تدارک سے متعلق ہیں، حکومتوں کا ’بنیادی فریضہ‘ ہے۔ کووڈ-19 پر انسانی حقوق پر مبنی ردعمل تقاضہ کرتا ہے کہ وباء، سہولیات تک رسائی، سہولیات کے تعطل اور وباء پر رد عمل کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں درست اور تازہ ترین معلومات تمام افراد کی دسترس میں ہونی چاہئیں۔


حکومتیں کووڈ-19 کے بارے میں عوام کو جو معلومات دیں وہ درست، بروقت اور انسانی حقوق کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونی چاہئیں۔ غلط اور گمراہ کن معلومات سے نپٹنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ حکومتیں نقل و حرکت اور ذاتی آزادی پر بلا امتیاز اور لمبی چوڑی پابندیاں لگانے سے گریز کریں اور صرف لازمی پابندیوں کا اطلاق کریں جو سائنسی لحاظ سے ضروری اور اہم ہوں اور اس وقت لگائی جائیں جب متاثرہ لوگوں کی امداد کے طریقوں کو یقینی بنا لیا جائے۔ قرنطینہ یا لاک ڈاؤن نافذ کرتے وقت حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو خوراک، پانی، صحت اور نگہداشت کی سہولتیں دیں۔ کئی بزرگوں اور معذوری کے شکار لوگوں کا انحصار گھریلو اور سماجی خدمات کی بلا تعطل فراہمی پر ہوتا ہے۔ ان خدمات اور اقدامات کے تسلسل کو یقینی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری ایجنسیاں، سماجی تنظیمیں، صحت کی سہولیات اور دیگر ضروری سہولتیں فراہم کرنے والے اس حالت میں ہیں کہ وہ عمر رسیدہ لوگوں اور معذوری کے شکار افراد کی ضروریات پورا کرنے کے لیے اہم کاروائیاں جاری رکھ سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔