غزہ: کئی چہرے بے نقاب ہو گئے!... اعظم شہاب

جنگ بندی کی مخالفت یا ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے والے ممالک نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی انسانیت، آزادی، حقوق و مساوات کی تمام باتیں جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

اعظم شہاب

غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے مغربی ممالک کے چہرے سے انسانی حقوق کی پاسداری کا وہ نقاب نوچ کر پھینک دیا جس کے حوالے سے وہ پوری دنیا کو انسانیت کا درس دیتے نہیں تھکتے تھے۔ یوں تو پہلے سے بھی ان سے ایسی کوئی توقع نہیں تھی کہ وہ اسرائیل کی مرضی کے خلاف جائیں گے، کیونکہ سلامتی کونسل میں وہ اپنا رنگ دکھا چکے تھے، لیکن جنرل اسمبلی میں اردن کی جانب سے پیش کی جانے والی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں بھی وہ منھ کے بل گر پڑے۔ جن لوگوں کے نزدیک انسانی جانوں کو بچانے سے زیادہ یہ اہم ہو جائے کہ وہ جنہیں دہشت گرد یا ظالم تصور کر رہے ہیں، قرارداد میں ان کی مذمت کی جائے، تو ان کی انسانیت نوازی کی حقیقت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

جنرل اسمبلی میں 120 ممالک نے قرارداد منظور کی، 14 ممالک نے مخالفت کی، جبکہ 45 غیر حاضر رہے۔ جنہوں نے حمایت یا مخالفت میں ووٹ دیا ان کا موقف تو پوری دنیا کے سامنے کھل کر آ گیا ہے، لیکن جو غیر حاضر رہ کر ووٹنگ کے عمل میں حصہ ہی نہیں لیا، انہوں نے پوری دنیا کے سامنے اپنے ہاتھوں ہی اپنی رسوائی کا سامان کر لیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر حاضر رہنے والے ان ممالک کے اندر اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اعلانیہ اپنے موقف کا اظہار ہی کر سکیں۔ گویا اگر یہ جنگ بندی کی حمایت میں ووٹ دیتے تو امریکہ ناراض ہو جاتا اور اگر مخالفت میں جاتے تو ان ممالک کی ناراضگی کا خدشہ تھا جن سے ان کے کاروباری یا دیگر تعلقات ہیں۔ لہذا انہوں نے غیر حاضر رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ شاید ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی‘۔


ایسے ہی ملکوں میں ہمارا وطن عزیز بھی شامل ہے جو اتنی بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کر سکا کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی حمایت میں ووٹ ہی دے سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ووٹنگ سے یہ غیر حاضری ہمارے ان پردھان سیوک صاحب کی حکومت کے ذریعے ہوئی ہے جن کے ایک فون کال سے روس و یوکرین کے درمیان کی جنگ رک سکتی ہے (کم ازکم ان کی پارٹی کے لوگوں کا تو یہی دعویٰ ہے)۔ یوں بھی ان کی قائدانہ لیاقت ملک کی سرحدوں سے بہت دور نکل چکی ہے، اور وہ خود کو وشو گرو قرار دے چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ پھر کیا وجہ تھی کہ ہماری حکومت ووٹنگ کے عمل میں شریک ہو کر اپنا موقف تک واضح نہیں کر سکی؟ اگر ہم بھی جنگ بندی کی مخالفت کرنے والے ان 14 ممالک کے ساتھ شامل ہو جاتے تو بھلا کوئی ہمارا کیا بگاڑ سکتا تھا؟ یوں بھی مخالفت کرنے والے بیشتر ممالک ہمارے جی 20 کے ساتھی ہی ہیں۔

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ ہمارے پردھان سیوک ہی تھے جنہوں نے 7 اکتوبر کو غزہ-اسرائیل جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیل کی حمایت میں اوندھے منھ گر گئے تھے۔ اس وقت انہوں نے وزارت خارجہ کے موقف کا بھی انتظار نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ ان کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کی جم کر تنقید ہوئی تھی اور سوشل میڈیا پر آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی فلسطین و اسرائیل سے متعلق پارلیمنٹ تقریر خوب وائرل ہوئی تھی۔ لیکن پردھان سیوک صاحب کے ذریعے اسرائیل کی حمایت سے کم از کم یہ تو ضرور ہوا تھا کہ غزہ و اسرائیل سے متعلق ہماری حکومت کا موقف کھل کر دنیا کے سامنے آ گیا تھا۔ بھلے ہی اس موقف کی بنیاد مسلم مخالفت رہی ہو اور اس کا مقصد پولرائزیشن کی سیاست رہا ہو۔


فلسطین کی حمایت کا وزارتِ خارجہ کا موقف سامنے آنے کے بعد جب ہندوستان کی جانب سے غزہ کے لوگوں کے لیے امداد روانہ کی گئی تو یہ سمجھا جانے لگا کہ ہمارا ملک بھی غزہ و اسرائیل کے درمیان جنگ بندی چاہتا ہے۔ لیکن جنگ بندی کی ووٹنگ سے غیر حاضر ہو کر ہندوستان نے یہ بتا دیا کہ وہ نہ تو امریکہ کے خلاف جا سکتا ہے اور نہ ہی کھل کر اس کی حمایت ہی کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بڑی مشکلوں سے پردھان سیوک ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کے اثر سے باہر آئے ہیں اور پھر ایسے میں اگر وہ امریکہ خلاف جا کر جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیتے تو بائیڈن ایک بار پھر ناراض ہو جاتے۔ اس کے برخلاف اگر جنگ بندی کی مخالفت کرتے تو 120 مماملک بشمول عرب ممالک کے ناراض ہو جانے کا خدشہ تھا۔ یوں بھی قطر نے ہندوستان کے 8 سابق بحریہ کے لوگوں کو سزائے موت سنا کر وشوگرو صاحب کے عالمی قائدانہ حیثیت کی مٹی پلید کر دی ہے۔

کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے جنگ بندی کے ووٹنگ سے ہندوستان کے غیر حاضر رہنے پر جو باتیں کہی ہیں، وہ ایک جانب اگر ہندوستان کے موقف کی وضاحت ہے تو دوسری جانب حکومت کے منھ پر ایک طمانچہ بھی ہے۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’غزہ میں انسانیت کے ہر قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، لاکھوں لوگوں کے لیے خوراک، پانی، طبی سامان، مواصلات اور بجلی منقطع کر دی گئی ہے اور فلسطین میں ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے تباہ ہو رہے ہیں۔ اس معاملہ پر ایک موقف اختیار کرنے سے انکار کرنا اور ہر اس چیز کے خلاف جس کے لیے ہمارا ملک بحیثیت قوم کھڑا رہا، خاموش تماشائی بنے رہنا ناقابل قبول ہے۔ ’’ہندوستانی حکومت کوئی بھی موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہی ہے اور خاموشی سے ہر قانون کی خلاف ورزی کو دیکھ رہی ہے۔ فلسطین میں انسانیت کو تباہ کیا جا رہا ہے، یہ ان اقدار کے خلاف ہے جن پر ہمارا ملک قائم رہا ہے۔‘‘


سچائی یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری اور معصوموں کے قتل عام نے ان تمام ممالک کے سربراہان کو بے نقاب کر دیا ہے جن کے نزدیک انسانی جانوں سے زیادہ اہم ان کا اپنا سیاسی و علاقائی مفاد ہے۔ اردن کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کی مخالفت یا ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے والے ممالک نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی انسانیت، آزادی، حقوق و مساوات کی تمام باتیں جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں۔ یہ تمام لوگ گونگے، بہرے اور اندھے ہو چکے ہیں جنہیں اسرائیل کی دردنگی اور غزہ کے لوگوں کی مظلومیت نظر نہیں آ رہی ہے۔ جنگ بندی کے خلاف ووٹ دینے والے یا نیوٹرل رہنے والے اگر اس قدر ایکسرسائز کے بجائے صرف غیر جانبدار ہی ہو جائیں تو غزہ کے حریت پسند اسرائیل کو نہ صرف جنگ بندی پر مجبور کر سکتے ہیں بلکہ اپنے شرائط پر اسے گھٹنے پر بھی لا سکتے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے دعویدار یہ نوکیلے دانتوں والے لوگ بھلا ایسا کب ہونے دیں گے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;