بھارت جوڑو یاترا: تپسیا سے تحریک تک... اعظم شہاب

راہل گاندھی کی بھارت جوڑویاترا جب مہاراشٹر میں داخل ہوئی تو ایک تپسیا تھی، لیکن آخری پڑاؤ تک وہ ایک تحریک میں تبدیل ہوچکی تھی۔

بھارت جوڑو یاترا، تصویر ٹوئٹر@INCIndia
بھارت جوڑو یاترا، تصویر ٹوئٹر@INCIndia
user

اعظم شہاب

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے مہاراشٹر میں اپنے دن پورے کرلیے ہیں۔ دو روز آرام کے بعد وہ 23 نومبرکو ہندوستان کی وسطی ریاست یعنی کہ مدھیہ پردیش میں داخل ہو جائے گی، جہاں غالباً وہ 13؍دنوں تک رہے گی۔ مہاراشٹر میں اس پدیاترا کو14؍دنوں تک جو پذیرائی ملی اور عوام نے جس جوش وخروش کے ساتھ اس کا استقبال کیا، اس کا اندازہ غالباً نہ تو کانگریس کو رہا ہوگا اور نہ ہی راہل گاندھی کو۔ یہ ایک تاریخی پدیاترا تھی جس کے شاہد ہم جیسے وہ لاکھوں لوگ ہوئے جو اس میں شریک ہوئے۔ اس میں شرکت سے قبل ہماراتصور کچھ یوں تھا کہ راہل گاندھی اپنے طے شدہ راستے سے گزرتے جا رہے ہوں گے اور لوگ آ آکر ان سے ملاقاتیں کرتے ہون گے۔ لیکن جب ہم خود اس کا حصہ بنے تو اندازہ ہوا کہ لوگوں کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آرہا ہے، ایک جنون ہے جو لوگوں کو راہل گاندھی کی ایک جھلک دیکھنے پر مجبور کر رہی ہے، ایک امید ہے جو بتا رہی ہے کہ اگر راہل گاندھی نے ان کے دکھ سن لیے تو وہ ختم ہو جائیں گے۔

7 نومبر کو جب یہ یاترا ناندیڑ ضلع کے دیگلور میں داخل ہوئی تو دوسرے روز ناندیڑ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے اس پدیاترا کو ایک تپسیا قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کا ہر شخص تپسیا کرتا ہے لیکن اس کو اس کی تپسیا کا پھل نہیں ملتا۔ ہمارا سڑکوں پر چلنا بھی ایک تپسیا ہے جس میں ہمیں آپ کی باتوں کو سننے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب یہ یاترا ناندیڑ، ہنگولی، واشم، اکولہ ہوتے ہوئے بلڈانہ ضلع کے شیگاؤں میں پہنچی تو یہ ایک تحریک میں تبدیل ہوچکی تھی۔ ایک ایسی تحریک جو نہ صرف مہاراشٹر بلکہ پورے ملک کے لوگوں کے لیے ایک مشترکہ پیلٹ فارم بن گئی۔ ایک ایسا پیلٹ فارم جس نے ہر اس شخص کو متحد کر دیا جو بی جے پی و آرایس ایس کے نظریات اور ان کی حکومتوں کو ملک کے لیے تباہ کن سمجھتا ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی تعمیر و ترقی اخوت وبھائی چارے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، بی جے پی و آرایس ایس اپنی مفسدانہ سیاست سے ملک کو توڑ رہی ہے اور راہل گاندھی و کانگریس کے ساتھ ہی ملک توڑنے والوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔


اس پدیاترا کے تپسیا سے تحریک بننے کا اعتراف خود کانگریس نے بھی کیا۔ مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے جو مہاراشٹر میں یاترا میں ہر لمحہ ساتھ رہے، انہوں نے آخری روز یعنی 20 نومبر کو کہا کہ کچھ لوگ اس پدیاترا کو ایک ایوینٹ کہتے ہیں جبکہ یہ ایوینٹ نہیں بلکہ ایک موومنٹ ہے۔ اس نے لوگوں میں ایک امید اور توانائی پیدا کر دی ہے اور اس امید وتوانائی کو ہم ریاست بھر میں پہنچائیں گے۔ لیکن ان کے اس اعتراف سے قبل ہی یہ منظر صاف ہوچکا تھا کہ راہل گاندھی کی یہ پدیاترا ایک تحریک بن چکی ہے۔ ہوا یوں کہ مہاراشٹر میں داخل ہوتے ہی راہل گاندھی نے ساورکر کے معافی نامہ کا معاملہ اٹھا دیا۔ میڈیا جو محض ایک خانہ پری کے لیے اس پدیاترا میں راہل گاندھی کے ساتھ تھی، اس کے لیے یہ مجبوری ہوگئی کہ وہ راہل گاندھی کے بیانات کو بھرپور کوریج دے۔ کیونکہ مہاراشٹر میں بی جے پی و شیوسینا کی سیاست ہی شیواجی و ساورکر کے گرد گھومتی ہے۔ ساورکر کے بارے میں راہل گاندھی کے بیانات سے ریاست بھر میں ہلچل مچنی لازمی تھی سو 12؍دنوں تک اس پرخوب سیاست ہوئی۔

میڈیا کی اس توجہ کا فائدہ بھارت جوڑو یاترا کو خوب ہوا۔ مہاراشٹر میں یاترا کے آخری پڑاؤ میں بلڈانہ ضلع کے شیگاؤں میں راہل گاندھی نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ میڈیا کو امید تھی کہ راہل گاندھی اس جلسے میں بھی ساورکر کے بارے میں کچھ ضرور بولیں گے، اسی لیے اس نے جلسہ عام کو براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اتفاق کی بات یہ رہی کہ اس جلسے میں راہل گاندھی نے ساورکر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ اس طرح میڈیا کو مجبوراً اس پروگرام کو براہ راست نشر کرنا پڑ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ منتظمین کی میڈیا کوریج کی حکمت عملی تھی۔ کیونکہ براہ راست نشر کرانے کی صورت میں کچھ رقم ادا کرنی پڑتی اور اس پر بھی نیٹ ورک وغیرہ کا مسئلہ درپیش ہوتا۔ لیکن جلسے سے قبل ساورکر کے بارے میں راہل گاندھی کے بیان سے جو سیاست شروع ہوئی تھی، اس سے جلسے کی کارروائی براہ راست نشر بھی ہوگئی اور نیٹ ورک کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔


شیگاؤں میں راہل گاندھی کا جلسہ کوئی عام جلسہ نہیں بلکہ عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی سر ہی سر نظر آتے تھے۔ مقامی پولیس کے مطابق اس جلسے میں 2 لاکھ لوگوں نے شرکت کی، جبکہ جلسے کے منتظمین یہ تعداد 4 سے 5 لاکھ بتاتے ہیں۔ منتظمین کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے جلسہ گاہ کے لیے 4لاکھ کرسیوں کا انتظام کیا تھا اور ایک بھی کرسی خالی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ جلسہ گاہ کے باہر بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ جلسہ گاہ میں سیکٹر بنائے گئے تھے جن میں کرسیاں رکھی ہوئی تھیں، لیکن بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ کئی لوگوں نے کرسیوں پر بیٹھنے کے بجائے زمین پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں دو سیکٹر کے لوگ ایک ہی سیکٹر میں سما جائیں گے اور جلسہ گاہ کی گنجائش میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس جلسے میں شریک ہونے والوں سے زیادہ اہم بات لوگوں کی وہ دیوانگی تھی جو انہیں اس جلسہ گاہ تک کھینچ لائی تھی۔

مہاراشٹر اور خاص طور سے ودربھ کے علاقے نے اتنا بڑا اور کامیاب جلسہ شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ سیاسی جلسوں میں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ گاڑیوں وبسوں کا انتظام کرنا ہوتا، پھر بھی بسیں خالی رہ جاتی ہیں، شرکاء کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، شریک ہونے والے کرائے پر لائے جاتے ہیں۔ ممبئی میں دسہرہ کے موقع پر وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے بھی ایک جلسے کا انتظام کیا تھا، جس میں شریک ہونے والوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ انہیں پیسے دے کر لایا گیا ہے۔ شندے گروپ نے شرکاء کو لانے کے لیے اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کو 10؍کروڑ روپئے نقد ادا کیے تھے، جس کا میڈیا میں کچھ دنوں تک ذکر بھی رہا۔ لیکن اس جلسے میں ایسا کچھ نظرنہیں آیا۔ نہ بسوں کے لیے پیسے دیئے گئے، نہ ہی شرکاء کو کھانا پینا وپیسہ دیا گیا۔ اس میں شریک ہونے والے تمام لوگ رضاکارانہ طور پرخود ہی راہل گاندھی کو سننے آئے تھے۔ یہی دراصل اس جلسے کی انفرادیت رہی۔


 لیکن اس سے بڑھ کر لوگوں کا وہ جنون تھا جو انہیں راہل گاندھی سے جوڑ رہی تھی۔ پدیاترا کے دوران لوگ صبح 5 بجے سردی کے باوجود راہل گاندھی کے انتظار میں سڑکوں پر کھڑے نظر آتے تھے اور نہ صرف انتظار کرتے تھے بلکہ راہل گاندھی کے آنے بعد ان کے ساتھ پیدل چلتے بھی تھے۔ نوجوانوں میں راہل گاندھی کو ایک جھلک دیکھنے کی وہ دیوانگی تھی کہ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ راہل گاندھی نے بھی لوگوں کی محبت اور اپنائیت کا ویسا ہی جواب دیا۔ وہ چھتوں پر منتظر خواتین و بچوں سے ملنے ان کے چھتوں پر پہنچ جاتے تھے، سڑک پر نظر آنے والے بوڑھوں سے وہ خود آگے بڑھ کر ملتے تھے، بچوں سے کھیلنے لگتے، معذوروں کو سہارا دیتے۔ راہل گاندھی کی اس اپنائیت اور عوام کے جوش وخروش نے بلاشبہ اس پدیاترا کو ایک تپسیا سے تحریک میں تبدیل کر دیا، اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ریاستی کانگریس اس تحریک کو کیسے گھرگھر تک پہنچاتی ہے۔ اس کے علاوہ راہل گاندھی نے مہاراشٹر میں اپنی اس پدیاترا کی شروعات میں ہی عوام کو ’ڈرومت‘ کا پیغام دیا تھا، لیکن پدیاترا کے اختتام تک بی جے پی کے اندر راہل گاندھی وکانگریس کا ڈر صاف طور سے محسوس کیا جانے لگا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔