کیا بی جے پی رکن پارلیمنٹ پریتم منڈے اور مہاراشٹر کی سابق وزیر پنکجا منڈے بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے والی ہیں؟

یہ سوال کئی لوگوں کے ذہن میں گشت کر رہا ہے کہ کیا مہاراشٹر کی سابق وزیر پنکجا منڈے اور ان کی بہن بی جے پی رکن پارلیمنٹ پریتم منڈے بی جے پی چھوڑ کر این سی پی میں شامل ہونے والی ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>پنکجا منڈے اور پریتم منڈے</p></div>

پنکجا منڈے اور پریتم منڈے

user

سنتوشی گلاب کلی مشرا

کیا مہاراشٹر کی سابق وزیر پنکجا منڈے بی جے پی چھوڑنے والی ہیں؟ کیا وہ جلد ہی شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) میں شامل ہونے والی ہیں؟ کیا پنکجا کے ساتھ ان کی بہن اور مہاراشٹر میں بیڈ سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پریتم منڈے بھی پارٹی کا ساتھ چھوڑنے والی ہیں؟

حال کے دنوں میں سامنے آئے اشارے یہی بتا رہے ہیں کہ منڈے بہنیں زیادہ دنوں تک بی جے پی میں نہیں رہنے والی۔ ویسے بھی بی جے پی نے گزشتہ کچھ ایک سالوں سے ان دونوں کو حاشیے پر دھکیل رکھا ہے۔ پنکجا اور پریتم مہاراشٹر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر گوپی ناتھ منڈے کی بیٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ کبھی بی جے پی کے قدآور لیڈر رہے اور سابق مرکزی وزیر پرمود مہاجن کی بھتیجیاں ہیں۔ لیکن اب بی جے پی میں ان دونوں کا اعتماد ڈگمگا گیا ہے کیونکہ مرکز اور مہاراشٹر میں برسراقتدار بی جے پی نے ان دونوں کو ہی کسی بھی اہم کردار میں نہیں رکھا ہے۔


پریتم منڈے کی بات کریں تو بی جے پی میں وہ تنہا لیڈر ہیں جو کھل کر مظاہرین پہلوانوں کی حمایت میں سامنے آئی ہیں۔ بدھ کے روز پریتم نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ایک خاتون اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میں اس بات سے شرمندہ ہوں کہ ہماری ریسلر بہنیں اس قسم کے استحصال اور ظلم کا سامنا کر رہی ہیں۔‘‘

پریتم منڈے کا یہ بیان اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ پہلوانوں کے ایشو پر ابھی تک مرکزی وزیر برائے فلاح خواتین و اطفال اسمرتی ایرانی خاموش ہیں۔ وہیں اس بارے میں پوچھے گئے سوالوں پر وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی تو باقاعدہ بھاگتی ہی نظر آئیں۔


حال کے دنوں میں یہ بات بھی گرم رہی ہے کہ پنکجا منڈے ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا میں شامل ہو سکتی ہیں، کیونکہ انھوں نے دہلی میں منعقد ایک پروگرام میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’’میں تو بی جے پی میں ہوں، لیکن پارٹی میری نہیں ہے۔‘‘ اتنا ہی نہیں انھوں نے یہاں تک کہا کہ وہ اپنے ’بھائی‘ کے پاس بھی جا سکتی ہیں۔ ان کا اشارہ چچیرے بھائی دھننجے منڈے کی طرف تھا جو این سی پی میں ہیں اور انھوں نے 2019 کے اسمبلی انتخاب میں بیڈ ضلع کی پارلی سیٹ سے انھیں ہرایا تھا۔

مرکزی وزیر نتن گڈکری کی موجودگی میں پنکجا منڈے کے اس بیان کے بعد سیاسی گلیاروں میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ جس پروگرام میں پنکجا نے یہ بات کہی اس کا انعقاد ’راشٹریہ سماج پکش‘ نے کیا تھا۔ راشتریہ سماج پکش 2014 سے 2019 کے درمیان دیویندر فڑنویس حکومت کے ساتھ اتحاد میں رہا ہے۔ اہلیابائی ہولکر جینتی منانے کے لیے منعقد اس تقریب میں پنکجا یہاں تک کہہ گئیں کہ اگر کسی کی ان کے والد سے سیاسی طور پر نہیں بنتی تھی، تو وہ اپنے بھائی کے پاس جا سکتی ہیں۔


دھیان رہے کہ دیویندر فڑنویس ہر بار پنکجا کو راجیہ سبھا سیٹ دینے کے خلاف رہے ہیں۔ حال کے دنوں میں پنکجا کی بیڈ ضلع میں چلنے والی ویدناتھ چینی فیکٹری پر جی ایس ٹی افسران نے چھاپہ مارا تھا۔ یہ فیکٹری کئی سالوں سے خسارے میں چل رہی تھی اور فی الحال بند پڑی ہے۔ اس چھاپے کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ بی جے پی اپنے ہی لیڈروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

پنکجا منڈے نے کہا کہ ’’میں کسی بات سے نہیں ڈرتی۔ خوف ہمارے خون میں نہیں ہے۔ اگر میرے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا، تو میں کھیتوں میں جا کر گنا کاٹوں گی۔ میں مطلب پرست نہیں ہوں اور مجھے کسی چیز کی خواہش یا امید نہیں ہے۔ میں بی جے پی میں ہوں، لیکن بی جے پی کے لیے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔‘‘


بی جے پی کے کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنکجا ان دنوں پارٹی سے ناراض ہیں۔ حالانکہ پارٹی کے مہاراشٹر چیف چندرشیکھر باونکلے نے اس سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ سینئر لیڈر نتن گڈکری کی موجودگی میں کہا۔ اس لیے ہم سچائی جانتے ہیں۔‘‘ ویسے یہ بحث تو عام ہے ہی کہ نتن گڈکری کے بھی مہاراشٹر یا مرکز میں بی جے پی لیڈروں کے ساتھ کوئی بہت اچھے رشتے نہیں ہیں۔

اس درمیان این سی پی کے مہاراشٹر صدر جینت پاٹل نے ایک طرح سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پنکجا بی جے پی سے ناراض ہیں کیونکہ بی جے پی میں پارٹی کے وفادار کارکنان کو درکنار کر ان لوگوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جو ایم وی اے کا ساتھ چھوڑ کر آئے ہیں۔


دوسری طرف شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) لیڈر سنجے راؤت نے واضح لفظوں میں کہا کہ پنکجا کو اب صاف کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اپنے اوپر یقین ہونا چاہیے اور نتائج کی فکر کیے بغیر فیصلہ لینا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔