پاکستانی سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی!
یہ حقیقت عمران خان کو تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان میں اقتدار کی کنجی تینوں ’اے‘ کے پاس ہے، مگر عملی طور پر پہلے دو کے بغیر تیسرا کچھ نہیں کر سکتا۔

عمران خان کو 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں حال ہی میں کچھ راحت ملی ہے۔ عدالت نے ان مقدمات میں انہیں ضمانت دی ہے، مگر اس کے باوجود وہ ابھی جیل میں ہی ہیں کیونکہ ان پر بدعنوانی اور دیگر کئی معاملات میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں، جن میں ضمانت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یہ ضمانت اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں ایک نئی کروٹ لی جا رہی ہے، لیکن اس کے اثرات صرف ملکی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پڑنے والے ہیں۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے میں صرف ملکی سیاست یا داخلی مسائل کا دخل نہیں تھا بلکہ عالمی سیاست نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا۔ پاکستانی فوج اور بعض سیاستدانوں نے عمران خان کو ہٹانے کے لئے ایسا کھیل کھیلا جس میں ذرائع ابلاغ نے بھی بھرپور حصہ لیا اور مختلف کہانیاں تراش کر عوام کے سامنے پیش کیں۔ اکثر تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ روس کے دورے نے عمران خان کی سبکدوشی میں بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ امریکہ اس دورے سے ناخوش تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت ملنے کے پیچھے بھی عالمی سیاست، بالخصوص روس کے اثرات کارفرما ہیں؟
پاکستان کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ یہ ملک اپنی پالیسیوں میں آزاد نہیں ہے بلکہ اکثر فیصلے امریکہ کی خواہشات اور اشاروں پر کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی فوج ہمیشہ موجود رہتی ہے جو عملی طور پر امریکی مفادات کے تحفظ کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ میڈیا بھی اس نظام کا حصہ ہے، جو عوامی رائے کو مخصوص بیانیے کی طرف موڑنے کے لیے نت نئی کہانیاں گھڑتا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو تین ’اے‘ چلاتے ہیں: امریکہ، آرمی (یعنی فوج) اور اللہ۔ اس میں سے پہلے دو ’اے‘ یعنی امریکہ اور فوج کا کردار زیادہ نمایاں اور فیصلہ کن ہے جبکہ تیسرا ’اے‘ یعنی اللہ کا ذکر محض عوامی جذبات کے لئے کیا جاتا ہے۔
عمران خان کی ذاتی زندگی اور ان کے سیاسی سفر کو دیکھیں تو ایک دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ جوانی میں کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے۔ تاہم سیاست میں قدم رکھنے اور خاص طور پر وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کے لئے انہوں نے مذہب کا سہارا لیا۔ ان کی تیسری شادی اس کی بڑی مثال ہے، جو انہوں نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے مقصد سے ایک خاتون صوفی بشریٰ بی بی سے کی۔ اس شادی کو روحانی طاقت اور عوامی حمایت سے جوڑ کر پیش کیا گیا اور بلاشبہ اس کے نتیجے میں عمران خان کو سیاسی فائدہ بھی ہوا، یہاں تک کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔
مگر وزارتِ عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے کے بعد انہوں نے جن دو ’اے‘ کو نظرانداز کیا، وہ دراصل ان کی ناکامی کی اصل وجہ بنے۔ عمران خان نے امریکہ اور پاکستانی فوج دونوں کو ناراض کیا۔ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی میں زیادہ تر عوامی مقبولیت اور مذہبی بیانیے پر تکیہ کرتے رہے، مگر طاقت کے اصل مراکز کو مطمئن نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تیسرا ’اے‘ یعنی اللہ بھی انہیں اقتدار سے بچا نہ سکا۔
یہ حقیقت عمران خان کو تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان میں اقتدار کی کنجی تینوں ’اے‘ کے پاس ہے، مگر عملی طور پر پہلے دو کے بغیر تیسرا کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں تو انہیں امریکہ اور فوج کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ بصورت دیگر وہ چاہے کتنے ہی عوامی جلسے کریں، کتنا ہی مذہبی بیانیہ اختیار کریں یا کتنے ہی تعویذوں پر بھروسہ کریں، کامیابی ان کے ہاتھ نہیں لگے گی۔
عمران خان کی ازدواجی زندگی بھی ان کے سیاسی سفر سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کی پہلی شادی ایک برطانوی خاتون سے ہوئی جو مالی اعتبار سے خوشحال اور یہودی تھیں۔ وقت کے ساتھ انہیں احساس ہوا کہ یہ تعلق پاکستانی عوام اور ذرائع ابلاغ میں ان کے سیاسی مستقبل کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لئے یہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک صحافی سے شادی کی تاکہ میڈیا کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کر سکیں، لیکن وہ رشتہ بھی ناکام رہا۔ آخر کار بشریٰ بی بی سے شادی کے ذریعے انہوں نے مذہبی اور روحانی تاثر حاصل کیا، جس نے عوامی سطح پر ان کے بیانیے کو تقویت دی۔ لیکن جیسا کہ کہا گیا، اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے صرف ایک ’اے‘ کافی نہیں ہوتا۔
آج عمران خان لاکھوں پاکستانیوں کے لئے امید کی شمع ہیں۔ وہ ان کے لئے ایک ایسے رہنما ہیں جو کرپٹ نظام کے خلاف کھڑا ہے، جو بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کرتا اور جو عوامی امنگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ طاقت کے اصل مراکز کو نظر انداز کرتے رہے تو ان کی سیاست کا انجام بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح ناکامی اور فراموشی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ تعویذوں یا تیسری شادی کے روحانی پہلوؤں پر مرکوز کرنے کے بجائے پاکستان کے مستقبل کی تعمیر پر دیں۔ ملک کو سیاسی استحکام، اقتصادی ترقی اور خارجہ پالیسی کی خودمختاری کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اس سمت میں سنجیدہ اقدامات کریں، تو شاید ایک دن واقعی وہ ایسے رہنما بن سکیں، جس کا خواب پاکستانی عوام دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے حقیقتوں کو نظر انداز کیا اور طاقت کے دو بڑے ستونوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہ بنائے تو ان کے حصے میں صرف جیل، ناکامی اور مایوسی آئے گی۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ عمران خان کے پاس زیادہ مہلت نہیں ہے۔ یا تو وہ زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، یا پھر ان کا سیاسی سفر ایک اور نامکمل کہانی بن جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔