ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے عبوری ضمانت کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی عرضی

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے کہ ابھی تک انھیں تحریری شکل میں دہلی پولس کی جانب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا ہے، اس لیے انھوں نے کل پوچھ تاچھ کے لیے تھانہ جانے سے انکار کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے دہلی ہائی کورٹ میں عبوری ضمانت (Anticipatory Bail) کے لیے عرضی داخل کر دی ہے۔ یہ قدم انھوں نے دہلی پولس کے ذریعہ بدھ کے روز انھیں تھانہ لے جانے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھایا ہے۔ انھوں نے آج 'قومی آواز' سے بات کرتے ہوئے فون پر کہا کہ "بدھ کے روز جب دہلی پولس ان کے گھر پہنچی تو تحریری طور پر کچھ بھی دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ جب تک تحریری شکل میں مجھے کچھ نہیں دیا جاتا، تھانے نہیں جاؤں گا۔"

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے کہ ابھی تک انھیں تحریری شکل میں دہلی پولس کی جانب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا ہے، اس لیے کل پوچھ تاچھ کے لیے تھانہ جانے سے میں نے انکار کر دیا۔ کچھ لوگ مسائل پیدا کر رہے ہیں جو بلاوجہ ہے۔ دراصل پورا ہنگامہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے ذریعہ کیے گئے اس ٹوئٹ کو لے کر میڈیا نے کھڑا کیا جس میں انھوں نے کویت حکومت کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا تھا کہ وہ شمالی دہلی کے مسلم کش فسادات کی مذمت کرتی ہے۔


اس تعلق سے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے 'قومی آواز' کو بتایا کہ انھوں نے ٹی وی چینل 'ٹائمز ناؤ' کو نوٹس جاری کیا ہے کیونکہ اس چینل نے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا اور لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اب جب کہ دہلی ہائی کورٹ میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے عبوری ضمانت کے لیے عرضی داخل کر دی ہے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے قانونی طریقے سے حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم کر لیا ہے اور جو لوگ غلط فہمی کا بازار گرم کر رہے ہیں، انھیں سبق سکھانے کی بھی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔

'قومی آواز' سے بات چیت کے دوران دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے بدھ کے روز اس وقت بھرپور تعاون کیا جب دہلی پولس ان کے گھر پہنچی تھی۔ انھوں نے کہا کہ "رکن اسمبلی امانت اللہ خان، سابق رکن اسمبلی آصف محمد خان اور دیگر کئی سیاسی و سماجی کارکنان میرے گھر پہنچ گئے جب انھیں پتہ چلا کہ پولس آئی ہوئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ لوگ میرے ساتھ کھڑے ہیں، اور سچ یہی ہے کہ ٹوئٹ میں ایسا میں نے کچھ نہیں لکھا جو ہندوستان کے خلاف ہو۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 May 2020, 1:40 PM