بنگال کے ووٹروں کو لبھانے کے لیے بنگلہ دیش کا دورہ... سہیل انجم

بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر بی جے پی انتخابات میں شکست ہوتی دیکھے گی تو ای وی ایم میں گڑبڑی کرا کے اسی طرح نتائج میں ہیرپھیر کر سکتی ہے جیسے کہ اس نے بہار اسمبلی انتخابات میں کیا تھا۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @BJP4Bengal
تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @BJP4Bengal
user

سہیل انجم

اس وقت پانچ ریاستوں مغربی بنگال، تمل ناڈو، آسام، کیرالہ اور پڈوچری میں اسمبلی انتخابت کی مہم چل رہی ہے۔ یوں تو تمام ریاستوں کے انتخابات اہم ہوتے ہیں لیکن اس وقت ان پانچوں میں سے اگر کسی ریاست پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں تو وہ یقیناً مغربی بنگال ہے۔ وہاں بی جے پی، ٹی ایم سی اور کانگریس لیفٹ اتحاد میں مقابلہ ہے۔ لیکن سیاسی مشاہدین اگر گفتگو کر رہے ہیں تو بی جے پی اور ٹی ایم سی میں مقابلے کی بات کر رہے ہیں۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر مغربی بنگال کو جیتنا چاہتی ہے۔ اس نے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں 42 میں سے 18 نشستیں جیت لی تھیں۔ یعنی اسے مجموعی طور پر 41 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس صورت حال سے اس کے حوصلے بلند نظر آرہے ہیں۔

لیکن اندر اندر بی جے پی خوف زدہ بھی ہے۔ اس نے وہاں ہندو مسلم کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ ناکام ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہندو بمقابلہ ہندو کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ وہ اس طرح کہ اس نے جے شری رام کے نعرے کو ایک جنگی نعرہ بنانے کی کوشش کی اور ہندووں کے ذہنوں میں یہ بٹھانا چاہا کہ ٹی ایم سی لیڈر اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو جے شری رام کے نعرے سے چڑ ہے۔ اس نے مغربی بنگال میں پوجی جانے والی دیوی درگا یا چنڈی کو رام جی کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یعنی ہندو بنام ہندو کا کھیل شروع کرنا چاہا تھا۔ جس پر ممتا نے کہا تھا کہ مغربی بنگال میں ’’کھیلا ہوبے‘‘۔ لیکن اب اپنی اس کوشش میں ناکامی کے بعد وزیر اعظم مودی نے ’’وکاس ہوبے‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ انھوں نے پارلیمانی انتخابات میں بھی وکاس کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وکاس کا غبارہ بری طرح پھٹ گیا ہے۔ نہ تو کہیں وکاس ہے اور نہ ہی کہیں ترقی نظر آرہی ہے۔


اب بی جے پی کو فرفرا شریف کی جانب سے مسلم ووٹوں میں تقسیم کا ایک سہارا ہے۔ یاد رہے کہ فرفرا شریف کے پیرزادے عباس صدیقی نے ’’انڈین سیکولر فرنٹ‘‘ نامی ایک نئی سیاسی پارٹی تشکیل دی ہے۔ سیاسی پارٹی کی تشکیل سے قبل مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے فرفرا شریف کا دورہ کیا تھا اور عباس صدیقی سے ملاقات کی تھی۔ لیکن عباس صدیقی نے کانگریس اور لیفٹ کے محاذ سے اتحاد کیا ہے۔ اس لیے بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ انڈین نیشنل فرنٹ ممتا بنرجی کے ووٹ کاٹے گی اور اس طرح اسے انتخابی فائدہ ہوگا۔

ادھر بی جے پی کامیابی حاصل کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق وہ اپنے ہر امیدوار کو کروڑوں روپے دے رہی ہے۔ بی جے پی کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں سے اس کی دوستی نے اس کے لیے قارون کا خزانہ کھول دیا ہے۔ موجودہ حکومت ملک کی صنعتوں اور محکموں کو کارپوریٹ اداروں کے ہاتھوں اسی لیے فروخت کر رہی ہے تاکہ بی جے پی کے پاس پیسوں کی کمی نہ رہے اور وہ اسی طرح ہر الیکشن جیتتی رہے۔ لیکن مغربی بنگال کے سیاسی مشاہدین سے بات کیجیے تو ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو کسی بھی قیمت پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی اور وہ حکومت سازی کی پوزیشن نہیں آئے گی۔ بلکہ ایسا ممکن ہے کہ ٹی ایم سی، کانگریس، لیفٹ اور آئی این ایف کی مخلوط حکومت بن جائے۔


وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے دوسرے لیڈروں کو بھی اس صورت حال کا احساس ہے۔ اسی لیے وہ ہر حربہ اختیار کر رہے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر بی جے پی انتخابات میں شکست ہوتی دیکھے گی تو ای وی ایم میں گڑبڑی کرا کے اسی طرح نتائج میں ہیرپھیر کر سکتی ہے جیسے کہ اس نے بہار اسمبلی انتخابات میں کیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی اب انتخابی کامیابی کے لیے دوسری سرزمین کا بھی استعمال کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب بنانے کی اپیل امریکہ میں جا کر کی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ٹرمپ ہار گئے۔ اب وہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی کامیابی کے لیے بنگلہ دیش کی سرزمین کا استعمال کرنے جا رہے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر 26 مارچ کو بنگلہ دیش جا رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے دورے سے پہلے ہی وہاں ان کی مخالفت شروع ہو چکی ہے۔ ان کے دورے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن بہرحال ان کا جانا طے ہے۔


اس دورے کے دوران وہ ڈھاکہ سے 190 کلومیٹر دور ’’اوراکنڈی‘‘ جائیں گے جہاں وہ 11 مارچ 1812 کو پیدا ہونے والے ہری چند ٹھاکر کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ ہری چند ٹھاکر ہندووں کے ایک مذہبی گروپ ’’متووا‘‘ کے بانی ہیں۔ متووا بہت بڑی تعداد میں تقسیم وطن سے پہلے اور اس کے بعد ہجرت کرکے ہندوستان آگئے تھے اور مغربی بنگال میں ان کی خاصی آبادی ہے۔ پانچ پارلیمانی حلقوں میں وہ اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہیں۔ اگر چہ ان کی آبادی سرکاری طور پر گنی نہیں گئی لیکن ایک اندازے کے مطابق وہاں ایک کروڑ متووا ووٹر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی حکومت نے شہریت کا ترمیمی قانون اس مذہبی طبقے کو ذہن میں رکھ کر بھی بنایا تھا۔ جس کی وجہ سے پارلیمانی الیکشن میں اس طبقے نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔

لیکن سی اے اے کی منظوری کے پندرہ ماہ بعد بھی اس کے ضوابط ابھی تک طے نہیں ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے مغربی بنگال کے ایک دورے میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کورونا کی وجہ سے اس معاملے میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اب کورونا ٹیکہ کاری کا عمل مکمل ہونے کے بعد اس کے ضابطے طے کیے جائیں گے اور اس قانون کو عملی روپ دیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے اس قدم سے متووا طبقے میں بی جے پی سے ناراضگی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق متووا کے گڑھ بونگاؤں اور ٹھاکرنگر میں اس طبقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ان لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔


اس طبقے سے تعلق رکھنے والے بی جے پی ایم پی شانتنو ٹھاکر کھلے عام اپنی ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی متووا طبقے کے جذبات سے کھیلنے کا حق نہیں ہے۔ سی اے اے کا نفاذ ہونا چاہیے۔ بنگال کے ایک بی جے پی لیڈر نے بھی ان کی ناراضگی کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا بنگلہ دیش میں متووا طبقے کے مذہبی مقام کا دورہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ ان کے اس دورے سے الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا۔ دراصل سی اے اے بی جے پی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ اگر وہ الیکشن کے دوران اس کے نفاذ کا اعلان کرتی ہے تو آسام میں اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم آسام میں نقصان سے بچنے کی کوشش میں بنگلہ دیش کے مذکورہ مقام کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ متووا کی ناراضگی کو دور کیا جا سکے۔

اس طرح اگر دیکھا جائے تو نریندر مودی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے ہیں جنھوں نے ایک دوسرے ملک میں جا کر اس ملک کے سربراہ کے حق میں انتخابی مہم چلائی اور اب ایک اور ملک میں جا کر اپنی پارٹی کے حق میں انتخابی مہم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مودی بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بی جے پی محض اقتدار کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ وہ تو کانگریس اور دوسری پارٹیاں ہیں جو صرف الیکشن جیتنا چاہتی ہیں۔ جبکہ بی جے پی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ موجودہ حکومت جو بھی فیصلے کرتی ہے خواہ وہ کسی بھی محکمے سے متعلق ہو اور کوئی بھی اسکیم ہو اس میں وہ انتخابی فائدہ دیکھتی ہے اور کچھ نہیں۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی ہمیشہ الیکشن کے موڈ میں رہتی ہے اور وزیر اعظم مودی تو کبھی الیکشن موڈ سے باہر آئے ہی نہیں۔ یہ کتنے شرم کا مقام ہے کہ ایک وزیر اعظم دوسرے ملک میں ایک مذہبی مقام کا دورہ محض اس لیے کریں کہ ان کی پارٹی کو انتخابی فائدہ پہنچے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔