ٹریبونل ریفارمس بل معاملہ میں سپریم کورٹ نے مودی حکومت پر اٹھائے سوال

سپریم کورٹ نے سلیٹ کمیٹی کی سفارشات کے باوجود مختلف اتھارٹیز میں تقرریاں نہیں کرنے پر مرکز کے سامنے گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ٹریبونل ریفارمس بل 2021 کو لے کر مودی حکومت پر سوال بھی اٹھائے۔

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات کے باوجود مختلف اتھارٹیز میں تقرریاں نہیں کرنے پر مرکز کے سامنے گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ٹریبونل ریفارمس بل 2021 کو لے کر مودی حکومت پر سوائے بھی اٹھائے، جسے گزشتہ ہفتہ پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس این وی رمنّا کی صدارت والی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ بل کو ان سہولتوں کے ساتھ کیوں پیش کیا گیا جنھیں عدالت عظمیٰ نے خارج کر دیا تھا۔

بنچ نے کہا کہ ’’ان سب (عدالتوں کی ہدایات) کے باوجود کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا ہے کہ جس آرڈیننس کو رد کر دیا گیا تھا، اسے پھر سے نافذ کر دیا گیا ہے۔‘‘ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ’’ہم پارلیمنٹ کی کارروائی پر تبصرہ نہیں کر رہے ہیں۔ بے شک، قانون سازیہ کے پاس قانون بنانے کا خصوصی اختیار ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’کم از کم ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ اس عدالت کے ذریعہ خارج کیے جانے کے باوجود حکومت نے بل کیوں پیش کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں (بل کو لے کر) کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’برائے کرم ہمیں بحث دکھائیں- وجہ اور سب کچھ بتائیں۔‘‘ جسٹس رمنّا نے مرکز کی نمائندگی کر رہے تشار مہتا سے کہا کہ ’’یہ ایک سنگین ایشو ہے۔ ٹریبونلس کو جاری رکھنا ہوگا یا بند کرنا ہوگا۔‘‘ مہتا نے عدالت عظمیٰ کے سامنے بتایا کہ مرکزی انتظامی ٹریبونلس میں تقرریاں کی گئی ہیں۔


مختلف ٹریبونلس میں خالی جگہوں کے تعلق سے جسٹس ایل ناگیشور راؤ کی صدارت والی بنچ کے ذریعہ کیے گئے فیصلوں کے متعلقہ حصے کو پڑھنے کے بعد چیف جسٹس نے مذکورہ تبصرے کیے۔ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ٹریبونلس کے ذریعہ انصاف کا انتظام تبھی اثردار ہو سکتا ہے جب وہ ایگزیکٹیو کنٹرول سے آزاد ہو کر کام کرتے ہیں، اور یہ انھیں قابل اعتماد بناتا ہے اور عوام میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے عدالت کے ذریعہ جاری ہدایات کو نافذ نہیں کرنے کی ایک پریشان کرنے والی روایت دیکھی ہے۔ چیف جسٹس نے ٹریبونل بل کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ ’’ہمیں اس قانون کو بنانے کے اسباب کو جاننا چاہیے؟‘‘ اس پر مہتا نے کہا کہ ’’یہ پارلیمنٹ کی دانشمندی ہے۔‘‘

اس درمیان چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’’کیا آپ بل کے اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں وزارت کا نوٹ دکھا سکتے ہیں؟‘‘ اس کے جواب میں مہتا نے کہا کہ جب تک بل ایکٹ کا درجہ حاصل نہیں کر لیتا، اس وقت تک اس کی جانب سے رد عمل دینا مناسب نہیں ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’جہاں تک ویلیڈیٹی کا سوال نہیں ہے، میں ابھی جواب دینے کی حالت میں نہیں ہوں۔‘‘ بہر حال، عدالت عظمیٰ نے تقرریاں کرنے کے لیے 10 دن کا وقت دیا اور ریزلٹ کے بارے میں آگاہ کیا۔ مہتا نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال ٹریبونل سے جڑے معاملوں میں پیش ہو رہے تھے اور انھوں نے بیان دینے کے لیے ان سے مشورہ کرنے کے لیے وقت مانگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔