دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کرام اور موذنین کو گزشتہ 13 ماہ سے نہیں ملی تنخواہ، ائمہ کا کوئی پرسان حال نہیں

آل انڈیا امام فاﺅنڈیشن کے چیئرمین مولانا عارف قاسمی نے کہا کہ دنیا میں جتنی بھی پریشانیاں انسان پر آتی ہیں وہ سب ان دنوں دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کرام اور موذنین پر آئی ہوئی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

محمد تسلیم

نئی دہلی: دہلی وقف بورڈ کے تحت آنے والی مسجدوں کے ائمہ کرام اور موذنین کو گزشتہ 13 ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس مشکل وقت میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جب دہلی وقف بورڈ اور اس کے چیئرمین امانت اللہ خان سے ائمہ کرام کی تنخواہ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو اپنی پریشانی کو حل کرانے کی غرض سے ائمہ کرام نے کئی مرتبہ وزیر اعلی اروند کیجریوال سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پر دستک دی، لیکن ملاقات تو دور وقف بورڈ کے ائمہ کرام و موذنین کو اندر تک نہیں جانے دیا گیا۔ دسمبر 2022 کی بات ہے جب بہت کوششوں کے بعد آفیسر سپرنٹنڈنٹ برج موہن نے ائمہ کرام سے میمورنڈم لیا تھا اور پھر انھیں اس بات کا لالی پاپ دے کر بہلا دیا تھا کہ آپ کی تنخواہ اگلے ماہ آجائے گی۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب اماموں اور موذنین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تھا، اس موقع پر نئی دہلی واقع ایوان غالب کے آڈیٹوریم میں وزیر اعلی اروند کیجریوال اور امانت اللہ خان نے ایک بڑی تقریب منعقد کی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے خود کو ائمہ کرام کا ہمدرد اور مسلمانوں کا خیر خواہ بتایا تھا۔ وزیر اعلی اروند کیجریوال نے تو اپنی زبان سے کچھ اس طرح کے جملے ادا کئے تھے ’’اب تو آپ لوگوں کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں اب تو (جھاڑو کو) ووٹ دے دو گے۔‘‘ لیکن آج جب ان کی تنخواہ کو رُکے ہوئے 13 ماہ ہو گئے ہیں تو ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی ان کے حق میں کوئی بولنے کو تیار ہے۔


دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں کے نام نہاد عآپ لیڈران جو اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا کہتے ہوئے نہیں تھکتے وہ بھی اس مسئلہ پر منھ میں دہی جما کر بیٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے کانوں میں انگلی ڈال لی ہے۔ تنخواہ نہ ملنے سے اماموں کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ ان کو اب لوگوں نے قرض دینے سے بھی منع کر دیا ہے۔

’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے وقف بورڈ کے اماموں سے بات کی اور ان کا احوال جانا تو کافی افسوسناک اور تشویشناک باتیں سامنے آئیں۔ نام نہ شائع کرنے کی شرط پر دہلی وقف بورڈ کی مسجد کے ایک امام نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب سے کیجریوال حکومت آئی ہے، کبھی بھی ہماری تنخواہ وقت پر نہیں ملی۔ کبھی 4 مہینے، کبھی 6 مہینے، کبھی 11 مہینے، اور اب تو 8 ماہ سے ہم تنخواہ کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اب تو لوگوں نے ہمیں قرض دینا بھی بند کر دیا ہے۔‘‘


زیادہ تر امام وقف بورڈ سے ملنے والی تنخواہ سے ہی اپنا گزر بسر کرتے ہیں اور ان کا کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہے۔ اس سنجیدہ مسئلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا امام فاﺅنڈیشن کے چیئرمین مولانا عارف قاسمی نے کہا کہ ’’یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ ائمہ کرام سخت پریشانی میں مبتلا ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔‘‘ کچھ لوگوں نے تین چار بار اماموں کو قرض رقم اس شرط پر دی تھی کہ جب آپ کی تنخواہ آجائے تو لوٹا دینا، لیکن اب 13 ماہ ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں نے قرض رقم دی تھی انہوں نے اب اماموں کو مزید رقم دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ اماموں نے تقاضہ کرنے والوں کو اپنا اے ٹی ایم کارڈ تھما دیا ہے اور یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جب تنخواہ آ جائے گی آپ اپنی رقم لے لینا۔

ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ تنخواہ کب آئے گی اس بات کا جواب نہ تو وقف کے پاس ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس۔ مولانا عارف کا کہنا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اگلے مہینے تنخواہ آ جائے گی، لیکن نہیں آتی۔ ائمہ کرام اور موذنین صبر کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔ تنخواہ کے تعلق سے انکشاف کرتے ہوئے مولانا قاسمی نے یہ بھی بتایا کہ ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ ہماری تنخواہ کیوں رکی ہوئی ہے اور اگر رکی ہوئی ہے تو اس کو حل کون کرے گا۔ تنخواہ وزیر اعلی اروند کیجریوال دیں گے یا پھر وقف بورڈ سے دی جائے گی، یہ بات پوری طرح سے واضح نہیں ہو پائی ہے۔ معلوم کرنے پر کہا جاتا ہے کہ دہلی کے لفٹیننٹ گورنر ہمیں کام نہیں کرنے دے رہے، اور گورنر کے دفتر میں بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلی رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ دونوں کی سیاسی رسہ کشی میں ائمہ کرام اور موذنین دونوں شکار ہو رہے ہیں۔


مولانا عارف کا کہنا ہے کہ دنیا میں جتنی بھی پریشانیاں انسان پر آتی ہیں، وہ سب ان دنوں دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کرام اور موذنین پر آئی ہوئی ہیں۔ امام کسمپری کے عالم میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دہلی جیسے شہر میں روزانہ کے اخراج کو کسی بھی قیمت پر کم نہیں کیا جا سکتا۔ دن نکلتے ہی ناشتے کا خرچہ، دوپہر ہوتے ہی ظہرانہ کا خرچہ، رات ہوتے ہی عشائیہ اور اس درمیان پیش آنے والی جسمانی بیماریوں کی دوا کا خرچہ، اور گھر چلانے سے لے کر بیوی بچوں کا خرچہ لازی چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کسی فرد کو 13 ماہ سے تنخواہ نہ ملے تو اس کی حالت کیا ہوگی۔

واضح رہے کہ دہلی وقف بورڈ کے تحت آنے والی مساجد میں تقریباً 280 ائمہ کرام اور موذنین شامل ہیں۔ امام کو 18 ہزار اور موذن کو 16 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔ تاہم اسی تنخواہ سے ائمہ کے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ تنخواہ کے تعلق سے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔