ملک کو کانگریس کی انگڑائی کا انتظار!

انتخابی عمل کے دوران سیاسی پارٹیوں کے ایک دوسرے کے خلاف جم کر الزامات کے تیر چلائے گئے، جن سے ان پارٹیوں پر تو کوئی اثر نہیں پڑا، مگرعوام بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔

کانگریس، تصویر ٹوئٹر INCIndia
کانگریس، تصویر ٹوئٹر INCIndia
user

نواب علی اختر

ملک کی دو ریاستوں اور قومی راجدھانی کے بلدیاتی انتخابات کی تقریباً دو ماہ سے جاری کسرت اب تقریباً ختم ہوچکی ہے اور مجموعی طور پر دو ریاستوں کا انتخابی میچ کانگریس اور بی جے پی نے 1-1 سے جیت لیا ہے، وہیں دہلی کے میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے لگاتار چوتھی بار قابض ہونے کی کوشش کو ناکام کر کے عام آدمی پارٹی نے بھگوا پارٹی کو پویلین لوٹا دیا ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماچل اور گجرات کا الیکشن دو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات تھے لیکن جس طرح سے ان پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی تھیں، اس سے پہلے دن سے صاف تھا کہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان انتخابی نتائج سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی تصویر بننے کی بات کہی جا رہی تھی۔

اس لحاظ سے بلا شبہ گجرات میں بی جے پی کی جیت بہت بڑی ہے۔ کانگریس نے 2017 کے پچھلے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کڑی ٹکر دی تھی۔ تب اسے 268 رکنی اسمبلی میں 99 سیٹیں ملیں، جو حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد (95) سے صرف چار زیادہ تھیں۔ فطری طور پر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر کانگریس تھوڑا اور زور لگا دے یا بی جے پی تھوڑی سی لاپرواہی دکھاتی ہے تو الیکشن میں بڑا الٹ پھیر ہو سکتا ہے۔ تازہ نتیجے میں ریاست میں 1985 میں مادھو سنگھ سولنکی کی قیادت میں بنایا گیا 149 سیٹوں کا ریکارڈ اس بار بی جے پی نے توڑ دیا۔ ادھر ہماچل پردیش میں کانگریس نے شاندارجیت درج کرکے پارٹی حامیوں میں حوصلہ اور جوش بھرنے کا کام کیا ہے۔


مبصرین کی مانیں تو ہماچل فتح کرنا کانگریس کی محض ایک کروٹ کا نتیجہ ہے، اگر یہ پارٹی آگے چل کر انگڑائی لیتی ہے تو حیران کن نتائج سامنے آسکتے ہیں کیونکہ کئی سالوں سے ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنے والے عوام کھلی آنکھوں سے کانگریس کی طرف دیکھ رہے ہیں جو ملک اور عوام کی ترقی کے ساتھ ساتھ امن وامان اور نفرت کا سرکچل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے والی پارٹی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ گجرات میں کانگریس کی شکست لمحہ فکریہ ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کانگریس کے رہنما کسی ایک ریاست کو نہیں بلکہ پورے ملک کو جیتنے کے لیے نکل پڑے ہیں اور سینکڑوں کلومیٹر پیدل چل کرنفرت کا سر کچلنے اور محبت کو پروان چڑھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

حالیہ انتخابات سیاسی پارٹی کے درمیان الزام تراشیوں کی وجہ سے بھی یاد رکھے جائیں گے۔ انتخابی مہم اور انتخابی عمل کے دوران سیاسی پارٹیوں کے ایک دوسرے کے خلاف جم کر الزامات کے تیر چلائے گئے جن سے ان پارٹیوں پر تو کوئی اثر نہیں پڑا، مگرعوام بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ انتخابات سے قبل عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کروڑوں روپئے کی لالچ دے کر انہیں ورغلایا جا رہا ہے۔ دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کا الزام لگایا گیا۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے قائدین کاعوام میں اپنی صاف امیج پیش کرنے کی کوشش میں اس طرح کے الزامات لگانا اس کا شغل بن چکا ہے۔


یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ارکان اسمبلی ہوں یا دوسرے منتخب عوامی نمائندے، کئی ریاستوں میں انہیں خریدنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ کرناٹک، مدھیہ پردیش، سمیت کئی ریاستوں میں بی جے پی اس کھیل میں کامیاب ہوکر خود اقتدار پر قابض ہوچکی ہے۔ تاہم عام آدمی پارٹی کا جہاں تک سوال ہے وہ بی جے پی کی اسی شبیہ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ الزامات لگانے کے علاوہ عام آدمی پارٹی کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پارٹی کا یہ کہنا ہے کہ دہلی میں اسے پولیس پر کنٹرول حاصل نہیں ہے اسی لئے وہ کچھ نہیں کرسکتی صرف راز افشاء کرتی ہے۔ پنجاب میں حالانکہ پولیس ریاستی حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن وہاں بھی کچھ نہیں کیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ مسلسل الزامات کے باعث اب ان شبہات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ دونوں ہی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں اور الزام تراشیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ڈھال بننے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کے درمیان خاموش مفاہمت ہے۔ یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے۔عام آدمی پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے گجرات میں اپنا کیڈر نہ ہونے کے باوجود جس طرح سے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیا اس کا واحد مقصد بی جے پی کی جیت میں رول ادا کرنا اور کانگریس کے ووٹ شئیر کو نقصان پہنچانا تھا۔ شائد اسی تاثر کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کے لیے ایک بار پھر سے عام آدمی پارٹی نے بی جے پی پر دہلی میں اس کے کونسلرس کو خریدنے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔


 اگر ان الزامات میں واقعی سچائی ہے تو پھر پارٹی کو قانونی کارروائی کرنی چاہئے۔ پولیس میں شکایت درج کروائی جاسکتی ہے اور عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ پارٹی کو ایسا ضرور کرنا چاہئے۔ لیکن تجربات بتاتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی صرف پریکٹس پر یقین رکھتی ہے اورعملی طور پر کچھ کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ حالانکہ موجودہ وقت عمل کرنے کا ہے،عوام جملہ بازوں اور الزام تراشی کرنے والوں سے عاجز آچکے ہیں۔ حالیہ انتخابی نتائج اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں اور اس کی تازہ مثال ہماچل پردیش ہے جہاں ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بی جے پی کامیاب نہیں ہوسکی اور عوام نے اس پارٹی کا باہر کا راستہ دکھا کر سابقہ تجربات کی بنیاد پرکانگریس پر ہی یقین کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔