سونبھدر کا رام بابو: ویٹر کے طور پر کام کیا، ملازمت گئی تو منریگا میں مزدوری کی اور اب نیشنل گیمز میں جیتا گولڈ میڈل

رام بابو کی یہ جیت اس لئے معنی رکھتی ہے کہ انہیں ماضی میں شدید مالی بحران کا سامنا رہا اور انہوں نے منریگا کے تحت مزدوری بھی کی۔

طلائی تمغہ حاصل کرنے والا رام بابو / سوشل میڈیا
طلائی تمغہ حاصل کرنے والا رام بابو / سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے والے قبائلی اکثریتی ضلع سونبھدر کے بیٹے نے کارنامہ انجام دیا ہے۔ ضلع کے بہوآرا گاؤں کے رہائشی نوجوان رام بابو نے گجرات میں منعقدہ نیشنل گیمز 2022 میں پیدل چلنے کے مقابلے (ریس واک) میں طلائی تمغہ حاصل کر لیا ہے۔ رام بابو ان مقابلوں میں اتر پردیش کے کھلاڑی کی حیثیت سے حصہ لے رہے تھے۔ یوپی کی طرف سے طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے کھلاڑی ہیں۔ رام بابو کی یہ جیت اس لئے معنی رکھتی ہے کہ انہیں ماضی میں شدید مالی بحران کا سامنا رہا اور انہوں نے منریگا کے تحت مزدوری بھی کی۔ منریگا یو پی اے حکومت کے دور میں متعارف کرائی گئی بہترین اسکیموں میں سے ایک ہے، جس کے تحت روزگار کی گارنٹی دی جاتی ہے۔

رام بابو نے پیدل چلنے کے اس مقابلہ میں مقررہ 35 کلومیٹر کا فاصلہ 2 گھنٹے 36 منٹ اور 34 سیکنڈ میں مکمل کیا۔ 23 سالہ رام بابو اس جیت کے بعد جذباتی ہو گئے اور بتایا کہ انہیں ایک کھلاڑی ہونے کے ناطہ زندگی میں کبھی مطلوبہ خوراک میسر نہی ہو سکی، رام بابو اب پیرس اولمپکس میں جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریس واک میں گولڈ میڈل جیتنے والے رام بابو کو ابتدائی تربیت ہاکی کوچ نے فراہم کی۔ رام بابو کے مطابق، وہ اپنے گاؤں میں 200 میٹر کے ٹریک پر پریکٹس کرتے تھے اور ہاکی کوچ ان کے پہلے رہنما بنے۔ انہیں پیدل چلنا کافی پسند تھا اور رام بابو کو لگتا ہے کہ یہ ان کی فطری عادت ہے۔


نیشنل گیمز میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے رام بابو کو زندگی میں کافی جدوجہد کا سامنا رہا۔ سہولیات کی عدم دستیابی کے پیش نظر وہ وارانسی کے ایک ہوٹل میں ویٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔ رام بابو کا کہنا ہے کہ اس دوران انہیں برے سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑا اور انہیں بہت ہراساں کیا گیا جس کے بعد انہوں نے ویٹر کی نوکری چھوڑ دی۔ اس کے بعد وہ وارانسی میں ہی ایک کمپنی کے لئے بیگ سلائی کا کام کرنے لگے۔ رام بابو بتاتے ہیں کہ یہ ایک کورئیر کمپنی تھی اور یہاں کام کرتے ہوئے وہ اپنی تیاری کے لیے وقت نکالتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کے دوران کمپنی بند ہو گئی اور پیدل چال کا چیمپئن پیدل ہی گھر کے لئے چل پڑا!

اس کے بعد مالی طور پر ٹوٹے رام بابو نے اپنے والد کے ساتھ منریگا میں کام کیا، جہاں اس کی مزدور کے طور پر کام کرنے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ اس کے بعد رام بابو تربیت کے لئے بھوپال چلا گیا اور یہاں سابق اولمپین بسنت بہادر رانا نے اس کی قیادت کی۔ نیشنل گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے کے ساتھ ہی رام بابو نے قومی ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ ہریانہ کے جنید کے نام تھا۔ رام بابو کی کامیابی پر سونبھدر میں جشن کا ماحول ہے۔


سونبھدر کے کملیش کمار نے کہا رام بابو کے خاندان کے پاس زرعی زمین نہیں ہے ان کے والد-والدہ دونوں مزدور ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ اسے خوراک تک میسر نہ ہو سکی۔ شہر کے سابق چیئرمین کے بیٹے گڈو امتیاز منصوری کہتے ہیں کہ سونبھدر کے نوجوان بہادر ہیں اور پہاڑ کا سینہ بھی چیر سکتے ہیں۔ رام بابو نے سہولیات کی کمی کے باوجود سونبھدر کے لیے ایک عظیم ترغیبی کام کیا ہے اور اس سے یقیناً علاقے کو فائدہ ہوگا۔

رام بابو کا تعلق جس گاؤں بہوآرا سے ہے وہ توہم پرستی کے کئی واقعات کے لیے بدنام رہ چکا ہے اور اس نے صرف ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ رام بابو اکثر مشق میں 40 کلومیٹر پیدل چلتے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سہولیات ملنے کے بعد وہ یقینی طور پر اور بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ خود رام بابو کا دعویٰ ہے کہ صرف ایک ماہ کی پریکٹس میں وہ اپنا ہی ریکارڈ توڑ سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔