الٰہ آباد یونیورسٹی کے طلبا کا دھرنا و مظاہرہ جاری، اضافی فیس کو پوری طرح سے واپس لینے کا مطالبہ

اتر پردیش میں الٰہ آباد یونیورسٹی کے طلبا فیس میں 400 فیصد اضافہ کی مخالفت گزشتہ ایک ماہ سے کر رہے ہیں اور ان کا دھرنا و مظاہرہ ہنوز جاری ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش میں الٰہ آباد یونیورسٹی کے طلبا فیس میں 400 فیصد اضافہ کی مخالفت گزشتہ ایک ماہ سے کر رہے ہیں اور ان کا دھرنا و مظاہرہ ہنوز جاری ہے۔ یہ جانکاری یونیورسٹی کے افسران نے دی۔ بتایا جاتا ہے کہ طلبا اور ضلع و یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان ہوئی میٹنگیں ابھی تک بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔

مظاہرہ کی قیادت کر رہے اجئے یادو سمراٹ کا کہنا ہے کہ ’’فیس میں اضافہ پوری طرح سے ناقابل قبول ہے۔ معاشی طور سے کمزور پس منظر کے طلبا یہاں پڑھنے اور اپنا مستقبل روشن کرنے کے لیے آتے ہیں، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ واضح طور سے ان کی پروا نہیں کرتی ہے۔ جب تک فیس میں ہوا اضافہ واپس نہیں لیا جاتا تب تک دھرنا و مظاہرہ جاری رہے گا۔‘‘


واضح رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں میں مظاہرین طلبا نے احتجاج کے الگ الگ طریقے اختیار کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے مطالبہ کو آگے بڑھانے کے لیے اس ہفتہ کی شروعات میں ’بھو-سمادھی‘ (مرضی سے خود کو زندہ دفنانا) لینے کی کوشش کی۔ حالانکہ مظاہرین کو پولیس اہلکاروں نے روک دیا اور طلبا کو تیار کی گئی قبر سے باہر نکالا۔ اس معاملے پر پولیس اور طلبا لیڈروں کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی۔ غنیمت رہی کہ واقعہ کے دوران کسی طالب علم کو سنگین چوٹ نہیں آئی۔ طلبا کا ایک گروپ ریلے بھوک ہڑتال پر بھی ہے۔

ستمبر میں ایک طالب علم نے اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ طالب علم آشوتوش تیواری الٰہ آباد یونیورسٹی کا نہیں تھا اور غیر قانونی طور پر تاراچند ہاسٹل میں رہ رہا تھا۔ یونیورسٹی نے ایک بیان میں یہ بھی بتایا تھا کہ واقعہ کی جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ طلبا تحریک کے دوران منگل کے روز مقامی انتظامیہ اور یونیورسٹی کے نمائندوں نے طلبا کے ساتھ میٹنگ کی تھی۔ اس میٹنگ میں احتجاجی طلبا نے فیس اضافہ کو پوری طرح سے واپس لینے اور طلبا یونین انتخاب کرا کر طلبا یونین کو واپس لانے کا مطالبہ کیا۔


اس معاملے میں یونیورسٹی نے فیس اضافہ کو ضروری قرار دیتے ہوئے دونوں ایشوز پر اپنا رخ واضح کیا اور کہا کہ طلبا یونین کے سلسلے میں معاملہ زیر غور ہے اور اس لیے اس معاملے میں یونیورسٹی کے افسران کے ذریعہ کوئی فیصلہ نہیں لیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعہ ایک اہم نکتہ رکھا گیا تھا کہ وائس چانسلر سنگیتا شریواستو نے انھیں یقین دلایا ہے کہ فیس اضافہ کے سبب کوئی بھی ہونہار یا غریب طالب علم تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔

سٹی مجسٹریٹ ستیہ پریا سنگھ نے کہا کہ ’’الٰہ آباد یونیورسٹی کے افسران نے احتجاج کرنے والے طلبا سے کہا کہ غریبوں اور ریزرویشن والے طلبا سے وصول کی گئی فیس انھیں اسکالرشپ کی شکل میں 100 فیصد واپس کر دی جاتی ہے اور اگر کوئی طالب علم فیس کی ادائیگی نہیں کر سکتی ہے تو وہ ہمیشہ اپنا معاملہ اٹھا سکتا ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی انتظامیہ اور یونیورسٹی اس کا خیال رکھیں گے۔‘‘


سمراٹ کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک غیر واضح اور شخصی تجویز ہے۔ کیا وائس چانسلر تحریری شکل میں دیں گے کہ فیس اضافہ کے سبب غریب طلبا کو نقصان نہیں ہوگا۔ ہم میں سے بیشتر معاشی طور سے کمزور پس منظر سے آتے ہیں اور فیس نہیں دے سکتے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ طلبا تحریک کو پہلے ہی سماجوادی پارٹی اور کانگریس کی حمایت مل چکی ہے۔ حالانکہ طلبا نے اپنی تحریک میں سیاسی لیڈروں کی براہ راست شراکت داری سے پرہیز کیا ہے۔ طلبا لیڈر نے کہا کہ ’’ہم اس ایشو کی سیاست کاری نہیں کرنا چاہتے، لیکن ایک ماہ ہو گیا ہے اور حکومت نے ہمارے ایشوز کو حل نہیں کیا ہے۔ اب ہم ایک نئی پالیسی کے بارے میں سوچیں گے، لیکن ہم شکست نہیں مانیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */