گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کے خلاف عرضی، الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آج متوقع

ضلع جج کے حکم کے خلاف مسلم فریق کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت جسٹس روہت رنجن اگروال کی سنگل بنچ میں ہوگی۔ آج کی سماعت میں ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین پہلے اپنے مزید دلائل پیش کریں گے

<div class="paragraphs"><p>گیانواپی مسجد / آئی اے این ایس</p></div>

گیانواپی مسجد / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

الہ آباد: وارانسی کی گیانواپی مسجد میں واقع تہہ خانے میں پوجا شروع کرنے کو چیلنج کرنے والے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ میں آج سماعت جاری رہے گی۔ ضلع جج کے حکم کے خلاف مسلم فریق کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت جسٹس روہت رنجن اگروال کی سنگل بنچ میں ہوگی۔ آج کی سماعت میں ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین پہلے اپنے مزید دلائل پیش کریں گے۔ عدالت ضرورت پڑنے پر یوپی حکومت اور کاشی وشوناتھ ٹرسٹ کو بھی سنے گی۔ یوپی حکومت کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل اجے مشرا اور کاشی وشوناتھ ٹرسٹ کی طرف سے ایڈوکیٹ ونیت سنکلپ دلائل پیش کریں گے۔

توقع ہے کہ گیانواپی مسجد کی انتظامی کمیٹی کی طرف سے دائر اس عرضی پر سماعت دوپہر تک مکمل ہو جائے گی۔ اس کیس میں سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت اپنا فیصلہ دے سکتی ہے یا عبوری حکم جاری کر سکتی ہے۔ اگر عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد آج فیصلہ نہ دیا تو فیصلہ محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔


منگل کو تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں مسجد کی انتظامی کمیٹی کے وکیل سید فرمان احمد نقوی نے سب سے پہلے اپنے دلائل پیش کئے۔ انہوں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک بحث کی۔ اپنی بحث کے دوران انہوں نے ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ عرضی گزار شیلیندر ویاس کا معاملہ ضلع جج نے 17 جنوری کو ہی نمٹا دیا تھا۔ 17 جنوری کو ہی وارانسی کے ڈی ایم کو تہہ خانے کا ریسیور مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسی معاملے میں 31 جنوری کو پوجا شروع کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ ضلع جج نے 31 جنوری کو ان کی ریٹائرمنٹ کے دن اس معاملے میں فیصلہ سنایا۔

مسجد کمیٹی کی طرف سے یہ بھی دلیل دی گئی کہ تہہ خانے پہلے مسجد کا حصہ تھا۔ ہندو فریق اس پر قبضے کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ صرف امن و امان کے پیش نظر 1993 میں اس جگہ کو تالے لگا دیے گئے تھے۔ مسلم فریق کے وکیل نقوی نے اسلم بھورے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ بحث کے دوران کیس کی سماعت کر رہے جسٹس روہت رنجن اگروال نے مسلم فریق کے وکیل سے کہا کہ وہ ملکیت کا ثبوت پیش کریں۔ جج نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ قبضے کا ثبوت پیش کریں تو آپ کی اپیل قبول کی جائے گی۔ اس پر نقوی نے کہا کہ تہہ خانہ حکومت کے قبضے میں تھا اور اس پر ہندوؤں کا بھی قبضہ نہیں تھا۔


ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے بھی اپنے دلائل پیش کئے۔ جین نے کہا کہ تہہ خانہ ہمارے قبضے میں تھا کیونکہ چابی ہمارے یعنی ہندوؤں کے پاس تھی۔ وشنو شنکر جین نے کہا کہ مسلم فریق نے کسی بھی موقع پر 17 جنوری کے ریسیور کی تقرری کے حکم کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ جج کو سی پی سی کی دفعہ 151 کے تحت اپنی صوابدید کے استعمال میں الگ الگ احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ عدالت میں جاری سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ گیانواپی سے متعلق آٹھ مقدمات ضلع عدالت میں چل رہے ہیں۔

آج کی سماعت میں ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کو پہلے اپنے باقی دلائل مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ مسجد کمیٹی کی عرضی میں وارانسی کے ضلع جج کے 31 جنوری کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ وارانسی کے ضلع جج کے 17 جنوری کو ڈی ایم کو تہہ خانہ کا ریسیور مقرر کرنے کے حکم کے خلاف مسلم فریق کی جانب سے ایک الگ درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ اس عرضی پر بھی آج ہی جسٹس روہت رنجن اگروال کی بنچ سماعت کرے گی۔ عدالت نے دونوں درخواستوں کو ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔