لوک سبھا انتخابات 2024: مظفرنگر میں ٹھاکروں کی ناراضگی اور مسلمانوں کے اتحاد سے بدل رہا سیاسی منظرنامہ!

مظفر نگر میں بی جے پی سے ٹھاکروں کی ناراضگی اگر 19 اپریل تک برقرار رہی اور مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا لیا تو یقین جانیے کہ پہلے مرحلے سے ہی کمل کا مرجھانا شروع ہو جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / آںی اے این ایس</p></div>

علامتی تصویر / آںی اے این ایس

user

اعظم شہاب

لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلہ کی انتخابی مہم آج تھم گئی۔ اس پہلے مرحلے میں 19 اپریل کو پورے ملک کی 102 سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یوں تو اس مرحلے میں ملک بھر کی 21 ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام خطوں میں ووٹنگ ہونے والی ہے، لیکن سب سے زیادہ تذکرہ اترپردیش کی ان 8 سیٹوں کا ہے جہاں کے رجحان کا اثر بہت حد تک پوری ریاست پر ہوتا ہے۔ یوں بھی مغربی سمت سے بہنے والی ’پچھوائی‘ کا اثر کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ مغربی اترپردیش کی ان سیٹوں کا سیاسی منظرنامہ اس لیے بھی معنی رکھتا ہے کیونکہ یہاں پر جاٹ، مسلم اور دلت رائے دہندگان کا ایک ایسا مثلث ہے جس کے چند فیصد کے کسی ایک جانب جھک جانے سے نہ صرف پانسہ پلٹ جاتا ہے بلکہ یہ اس پارٹی کی قسمت کا فیصلہ بھی کر دیتا ہے جس پر یہ مہربان ہوتا ہے۔

مغربی اترپردیش کی جن 8 سیٹوں پر پہلے مرحلے میں ووٹنگ ہونے والی ہے ان میں ایسی سیٹیں بھی شامل ہیں جو تینوں مثلث یعنی، جاٹ، مسلم اور دلت کے اثرات والی سیٹیں ہیں۔ مظفرنگر ان میں سے سب سے زیادہ اہم ہے جہاں مسلم رائے دہندگان کی تعداد خاطر خواہ ہے۔ یہاں کے کل 18 لاکھ ووٹرس میں سے تقریباً 20 فیصد ووٹرس مسلم ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں پر 18 فیصد دلت، 12 فیصد جاٹ اور 10 فیصد تک ٹھاکر ہیں۔ اس لحاظ سے اس سیٹ پر مسلمانوں کی اثراندازی دیگر برداریوں سے زیادہ ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم بھی خوب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے مرکزی وزیر سنجیو بالیان گزشتہ دو بار سے بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو رہے ہیں۔


لیکن اس بار یہاں کی صورت حال کافی بدلی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے یہاں سے سنجیو بالیان کو اپنا امیدوار بنایا ہے جنہیں ٹھاکر برادری کے لوگوں کی زبردست ناراضگی کا سامنا ہے۔ یہاں کے ٹھاکر ووٹرس اس بار سریش رانا اور سنگیت سوم کے ساتھ ہیں۔ ٹھاکروں کی سنجیو بالیان سے ناراضگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنجیو بالیان جہاں جاتے ہیں وہاں سے ان کی مخالفت کی خبریں آتی ہیں۔ سنگیت سوم کے حلقہ سردھنا میں تو بالیان صاحب کی مخالفت کا یہ عالم ہے کہ وہ اس علاقے میں انتخابی مہم تک میں جانے سے کتراتے رہے۔ کچھ لوگ اسے بی جے پی کی اندرونی لڑائی بھی کہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ بی جے پی نے سنجیو بالیان اور سنگیت سوم کے درمیان سمجھوتہ کرا دیا ہے، مگر سمجھوتے کی ان خبروں کے ساتھ ہی ٹکراؤ کی بھی خبریں گشت کرتی رہیں۔

سنجیو بالیان کو اس بار کسانوں کی  بھی ناراضگی کا شدید سامنا ہے۔ کسانوں کی جانب سے کئی مہاپنچایتوں میں بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کسانوں میں جاٹ و ٹھاکر برادری کے بھی کسان ہیں اور مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور فیکٹر ہے جو تیسری بار سنجیو بالیان کو پارلیمنٹ میں جانے سے روک سکتا ہے وہ فیکٹر اس بار کانگریس و سماجوادی پارٹی کا اتحاد ہے۔ اس سے قبل یعنی 2019 کے الیکشن میں کانگریس و سماجوادی پارٹی الگ الگ میدان میں تھیں۔ اُس وقت سماجوادی پارٹی کا اتحاد آر ایل ڈی اور بی ایس پی کے ساتھ تھا۔ یعنی مسلم ووٹ جو مظفر نگر میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے وہ دو خیموں میں تقسیم ہو گیا تھا۔


مسلم ووٹوں کی تقسیم کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ بی جے پی اور سماجوادی اتحاد کو تقریباً یکساں ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی کو 49.6 فیصد جبکہ سماجوادی پارٹی کے اتحاد کو 49.2 فیصد ووٹ ملا تھا۔ اس بار سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد نے مسلم ووٹوں کی تقسیم کے امکان کو قدرے کم کر دیا ہے۔ سماجوادی پارٹی نے یہاں سے ہریندر ملک کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ بی ایس پی نے دارا سنگھ پرجاپتی کو ٹکٹ دیا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے اس الیکشن کو سہ رخی بنانے کی خوب کوشش بھی ہوئی لیکن انتخابی مہم کے آخری دن تک جو سیاسی منظر تشکیل پا سکا ہے اس میں مسلمانوں کا جھکاؤ سماجوادی پارٹی کے امیدوار ہریندر ملک کی جانب ہے۔

سماجوادی پارٹی کے امیدوار ہریندر ملک کا شمار بھی جاٹ برادری کے بڑے لیڈروں میں ہوتا ہے۔ وہ چار بار (1985، 1989، 1991 اور 1996) میں کھتولی سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 2002 سے 2008 تک وہ راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ ان کے بیٹے پنکج ملک چرتھوال سے سماجوادی کے ایم ایل اے ہیں۔ ہریندر ملک نے آخری بار کانگریس سے الیکشن لڑا تھا جس میں انہیں صرف 70 ہزار ووٹ ملے تھے لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس بار ایس پی اور کانگریس اتحاد میں ہیں، اس لیے سابقہ منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں سنجیو بالیان نے جینت چودھری کے والد اجیت سنگھ کے خلاف الیکشن لڑا تھا جس میں انہوں نے جینت چودھری کو تقریباً ساڑھے چھ ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔


اس سیٹ پر 19 اپریل کو ووٹنگ ہونی ہے جس کا نتیجہ ملک بھر کے نتائج کے ساتھ یعنی کہ 4 جون کو ہی آئے گا۔ مگر اس پہلے ہی مرحلے پر یہاں پر جاٹ، ٹھاکر اور مسلم ووٹرس کا جو منظرنامہ تیار ہوا ہے وہ یقیناً پوری ریاست پر اثر انداز ہوگا۔ یہاں کے الیکشن کے نتائج اس بار ٹھاکر اور مسلمان طے کریں گے جن میں سے بی جے پی کی جانب سے ایک کو جوڑنے اور دوسرے کو توڑنے کی بھرپور کوشش ہوئی ہے۔ سریش رانا کی ناراضگی کے  ساتھ شروع ہوئی ٹھاکروں کی بی جے پی سے ناراضگی اگر 19 اپریل تک برقرار رہی اور مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا لیا تو یقین جانیے کہ اس پہلے مرحلے کی سب سے اہم سیٹ سے ہی کمل کا مرجھانا شروع ہو جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔